کراچی (نیوز ڈیسک) افغانستان کے بحران کے ہنگامہ خیز اختتامی کھیل میں شیر محمد عباس ستانکزئی یعنی شیرو، جو دہرادون کی انڈین ملٹری اکیڈمی میں 1982 کی کلاس میں تھے، طالبان کی بھارت تک رسائی کا اتنا ہی چہرہ بن گئے ہیں جتنا کہ وہ سیاسی تبدیلی کے لیے بنیاد پرست حکومت کا نقطہ نظر ہے۔ 1970 کی دہائی میں جب افغانوں کی پرانی نسل نے امن کے آخری حصے کا تجربہ کیا ، ستانکزئی اور دو دیگر جو پریشان کن قوم کی تاریخ میں مرکزی شخصیت بنے، معزول صدر اشرف غنی اور افغان امریکی امن مندوب زلمے خلیل زاد، بیرون ملک اسکالرشپس پر پڑھتے ہوئے سب خود کو ڈھونڈنے میں مصروف تھے۔ ستانکزئی ، جو اب طالبان کے لیے اہم مذاکرات کار ہیں، نے وہ سال ہمالیہ کے دامن میں بھارت کے معروف ملٹری اسکول میں تربیت لیتے ہوئے فوجی یونیفارم میں گزارے۔ وقفے پر اس کے نوجوان افغانوں کی کھیپ خود کو کشمیر کی پہاڑیوں میں یا فلمی ستاروں کے ساتھ ایک تصویر کی امید میں بالی ووڈ کے سیٹس پر پاتے تھے۔