• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر قاتلوں کا کھلا اعتراف درست مان لیا جائے تو ایبٹ آباد والا”مسکین کاکا“ اب اس دُنیا میں نہیں رہا۔ مسکین کاکا والا نام اسے پانچ سالہ بچی نے دیا جسے بتایا گیا تھا کہ مسکین کاکا کی جیب میں بازار تک جانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ جب سے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا بلیک مارکیٹ ایڈیشن سیاسی بازار میں لانچ ہوا ہے، مجھے یوں لگتا ہے کہ ایبٹ آباد کے بے نام حملے میں مارے جانے والے مسکین کاکا سے بڑے مسکین تو ہم خود ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو بھارت کو دیکھ لیں، جہاں مچھلیوں کی شکاری کشتی کے مسافر کو قتل کرنے کے الزام میں یورپ کے اہم ترین اکانومی والے ملک اور بھارت کے کاروباری شریکِ کار کے باوردی فوجیوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں کے نتیجے میں بھارتی سرکار اور مغرب کے درمیان لفظوں کی شدید گولہ باری اور دلائل یا الزامات کی ٹریڈنگ بھی ہوئی۔ مگر بھارت نے اپنے شہریوں کا خونِ ناحق”سرینڈر“ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف ہم ہیں جنہوں نے چار سال سے ممبئی حملوں کے الزام میں پاکستانیوں کو اڈیالہ میں قید کر رکھا ہے جبکہ بھارتی وزارتِ داخلہ کا بیانِ حلفی ان قیدیوں کو بے گناہ ثابت کرتا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور پارلیمینٹ حملے کی طرح۔ حالانکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر 4کا ذیلی آرٹیکل نمبر1واضح طور پر یوں کہتا ہے۔
”آئین کے تحفظ کی سہولت اور قانون کے عین مطابق سلوک پاکستان کے ہر شہری کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے ۔چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی بھی ایسا شخص جو وقتی طور پر پاکستان میں موجود ہو۔اس کو بھی یہی آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے“۔اسی آرٹیکل4کے ذیلی آرٹیکل 2 کے ضمنی آرٹیکل(اے) میں ایک اور آئینی گارنٹی پاکستان کے شہریوں اور سرزمینِ پاکستان پر موجود عام انسانوں کو دی گئی ہے ”کوئی ایکشن جو کسی کی جان ،آزادی، جسم، شہرت اور جائیداد کے حوالے سے لیا جانا ہو۔ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر ہو سکتا ہے، ماورائے قانون نہیں“۔ان دو آئینی دفعات کو سامنے رکھ کر پاکستان کی ریاست اور صاحبانِ اقتدار کو اب یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ریاستی آئین کے ساتھ ہیں یا ریاست پر اندرونی اور بیرونی طور پر حملہ آور ہونے والے اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ہمراہ…؟2 مئی کے دن ایبٹ آباد پر امریکی حملے کے بعد بڑے بڑوں کے ساتھ ساتھ ایبٹ آباد جیسے اہم ترین ضلع کی سول انتظامیہ، پولیس، انٹیلی جنس اور انتظامی اداروں کی بھی دھجیاں اُڑ گئی ہیں کیونکہ وہ اپنی ناک کے عین نیچے گرنے والی سات آٹھ لاشوں کے باوجود نہ تو ایف آئی آر درج کر سکے نہ تفتیش کر سکے اور نہ ہی ابھی تک کسی مجاز ٹرائل کورٹ میں چالان داخل کر سکے۔ پاکستانی ریاست کے یہ مسکین کاکا صرف پُرامن ہزارے والوں پر قانون کا ڈنڈا برساتے ہیں۔ ڈنڈے والوں کے سامنے ان کا اوسان سمیت سب کچھ خطا ہو جاتا ہے۔ہزارہ صوبہ تحریک کے دوران جس طرح ہزارے والوں کا لہو سڑکوں پر گرایا گیا اور صوبہ مانگنے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور پھر ایبٹ آباد کمپاؤنڈ پر حملہ آور ہونے والے جارحیت پسندوں سے ابھی تک آنکھیں چرائی گئیں وہ ہماری انتظامیہ کی مسکینی اور مسکین دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔ طاقت کے پجاری کروڑوں سالوں سے یہی سوچ رکھتے ہیں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ سانپ (ناگ دیوتا) آگ (اگنی ماتا) اور پہاڑ یا سورج جیسے طاقت کے مظاہر اور علامتوں کو ہی خدا کا درجہ دیا گیا۔ کبھی کسی نے گلاب کا پھول، موتیا اور گیندے یا چنبیلی کو دیوتا تسلیم نہیں کیا۔ اسی تسلسل میں آج کل پاکستان کے سابق مگر وفاشعار شہریوں کیلئے دیوی دیوتاؤں کے پڑوسی بنگلہ دیش میں پھانسیوں کا بازار سجایا گیا ہے۔نسلی تعصب کے عفریت کے پیٹ سے جنم لینے والے بنگلہ دیش میں نسلی تعصب کی بنیاد پر بنائے گئے ٹریبونل نے نورم برگ جنگی ٹریبونل کے فیصلوں کو بھی مات دے دی ہے۔میں نے پہلے دن ٹویٹر کے ذریعے مسکین پاکستان کے اکیانوے سالہ مسکین کاکا غلام اعظم کو دی گئی نسلی تعصب کی سزا کو مسترد کیا۔ اس کے قانونی نقائص عالمی اداروں تک بھی پہنچائے۔
سید منور حسن وہ واحد سیاسی لیڈر ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے حق میں موثر آواز اُٹھائی اور برادرِ محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے تاریخی تناظر میں چھپے نسلی تعصب کا پردہ چاک کیا۔لیکن ایشیاء میں بسنے والے پاکستان نواز اور پاکستان دوست حلقوں کیلئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان پاکستانی مفادات پر خودکش حملے کے مترادف ہے کہ” بنگلہ دیش میں پاکستان نواز رہنماؤں کو سنائی گئیں پھانسی کی سزائیں بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے“۔ میں وزارت خارجہ کے شعبہٴ عارضی بھرتی کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے وقت دونوں ملکوں نے جنگی جرائم پر مبنی کارروائیاں نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھاچنانچہ دفترِ خارجہ خوشامدی پروٹوکول سے باہر نکلے اور انسانی حقوق کا یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھائے۔ ساتھ ہی بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو سفارت کاری کو پارلیمینٹ کے سامنے پیش کرے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے پاکستان نواز عوام کے خدشات دور ہو سکیں۔آج کل وہ قانونی مجاہدینِ خلق نہ جانے کہاں غائب ہیں جو چند ماہ پہلے تک سپریم کورٹ کے جوڈیشل ریویو اور انتظامی معاملات پر آئینی گرفت کے راگ الاپتے تھے۔ نئی جمہوریت کے آتے ہی اُن کے عدل کا معیار بدل گیا ہے۔ عوام ریلیف مانگتے ہیں اور بقول چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ دوست محمد خان ”یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں عوام پر مسائل کا بوجھ بڑھ گیا ہے“۔ جسٹس دوست محمد خان کی بات سچ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی یہ بات کہ اس حکومت کا رویہ بھی پہلوں جیسا ہے۔ جب تک سیاسی انویسٹروں کو اقتدار اور پروٹوکول کے جھولے جھلائے جائیں گے۔ عدلیہ سیٹی بجانے والے کا کردار نہیں چھوڑ سکتی۔ ایک اور بات جو بقولِ شاعر بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی وہ یہ ہے کہ جس دور کی اپوزیشن پارلیمانی اور عوامی کردار ادا کرنے کے بجائے ”مزاحیہ فنکاری“ کو اپوزیشن رول کہنے پر اصرار کرے وہاں ایگزیکٹو اور بیوروکریسی کے بے لگام گھوڑے صرف جوڈیشل ریویو سے ہی لڑکھڑاتے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو تو پھر سلالہ میں ڈرون حملے سے مارے جانے والا مسکین کاکا یا رمضان میں رمضان پیکیج سے ہلاک ہونے والا مسکین کاکا فریاد کرنے کہاں جائے گا؟
اچھی گورننس اب اتنی اچھی ہو گئی ہے کہ نذیر احمد شیخ بھی بِلبلا رہے ہیں
ٹوٹے پھوٹے آئیں جیسے، گھٹتے گھٹتے سانس
پیروں سے چمگادڑ چمٹے، سر پر کھڑکیں بانس
جھاڑو جھاڑن موج منائیں، ان کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے، کتھک ناچے چھاج
درہم برہم سب تصویریں، طرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکیں، سجدے میں اقبال
اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چھڑائیں، رخصت ہو دستار
تازہ ترین