• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عالمی برادری سے تعاون کے لئے تین نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے: دہشت گردی، افیون کی پیداوار اور افغان مہاجرین جن سے نمٹنے کے لئے عالمی برادری سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ اپنی بڑی کمزوریوں کو بطور متاع استعمال کرنے کا ہنر کوئی افغان جنگجوئوں سے سیکھے۔ جنگی مہارت میں تو انہوں نے عظیم چینی تزویراتی ماہر سن زو کے کلیے کہ جنگ لڑے بنا فتح پائی جائے، کو کابل پر بلا مزاحمت قبضے سے ثابت کردیا ہے۔ لیکن ان کے سامنے اب جنگ سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نپٹنے کی اُن میں علمی اور نہ ہی ماہرانہ صلاحیتیں موجود ہیں اور نہ ہی ماہرین میسر ہیں۔ باصلاحیت لوگوں کا انخلا عمل میں ہے اور ان کا بڑا حصہ باہر جانے کا منتظر ہے۔ جدید ریاست اور اس کے ادارے جو گزشتہ 20 برسوں میں امریکی استعمار اور اس کے اتحادیوں اور عالمی اداروں نے تشکیل دئیے تھے وہ زمین بوس ہوگئے ہیں۔ عام معافی دینے اور ملازمتوں پہ واپسی کے اعلانات کے باوجود تقریباً تمام ادارے اور وزارتیں خالی پڑی ہیں۔ دس لاکھ کے قریب اہلکار اور غیر سرکاری سماجی ماہرین بیروزگار ہوگئے ہیں اور کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ خزانہ خالی ہے اور اسٹیٹ بینک کے 9.6ارب ڈالرامریکہ میں ضبط ہیں۔ درجن بھر بنک کھلے تو ہیں لیکن کیش ختم ہونے کو ہے۔ البتہ حوالے کے ذریعے ترسیلِ زراور لین دین جاری ہے، جس سے حوالہ دار خوب مال بنارہے ہیں۔ غیر رسمی کاروبار اور ترسیلِ زر میں افغانوں کا کوئی ثانی نہیں لیکن اس سے ریاست کا کاروبار نہیں چلایا جاسکتا۔ گزشتہ برس سالانہ اخراجات 11ارب ڈالر کے برابر تھے ، جس کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ افغانستان کی برآمدات ایک ارب ڈالرز سے کم ہیں اور چند خام برآمدات کے علاوہ بیچنے کو کچھ نہیں۔ اب دنیا کو بیچنے کے لئے بقول ذبیح اللہ مجاہد امارات کے پاس ہے بھی تو دہشتگردی کے خاتمے کا معاوضہ، افیون کی کاشت روکنے کے لئےبیرونی محاصلات اور افغان مہاجرین کے سیلاب کو تھامنے کے لئے مقامی روزگار پیدا کرنے اور 30لاکھ سے زیادہ اندرونی مہاجرین کی آبادکاری اور ان کی سلامتی کا بندوبست۔ ان تینوں کھاتوں پر سالانہ اربوں ڈالرز چاہئیں اور وہ ملنے انہی سے ہیں جن کے خلاف انہوں نے 20برس جہاد کیا تھا۔ افغانستان سخت قحط کا شکار ہے۔ تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں۔ اسپتالوں میں ادویات اور عملہ نہیں،ا سکول خالی پڑے ہیں اور سارا ریاستی نظام اُلٹ پلٹ گیا ہے۔

اوپر سے طالبان کا اصرار ہے تو اسی امارات کی بحالی پر جو 2001ء میں امریکی میزائلوں کے حملے سے بچنے کے لئے دور دراز کے غاروں میں منتقل ہوگئی تھی۔ ایک پوری نسل تیار ہوئی بھی ہے تو قتال کے لئے، کوئی دنیاوی تعلیم ہے نہ ہنر۔ نئے سیاسی نظام کا اعلان ہونے جارہا ہے تو تقریباً انہی خطوط پر جو 1996-2001میں ترتیب پایا تھا۔ البتہ اس بار لگتا ہے کہ ایرانی طرز کا چربہ تراشہ جارہا ہے جس میں امیر طالبان ملا ہیبت اللہ سپریم لیڈر ہوں گے اور ایک مشاورتی شوریٰ(یعنی ایرانی طرز کی ولایت فقیہہ)۔ حکومت کے سربراہ ملا بردار اور اہم محکموں پر بڑے جہادی رہنمائوں کا تعین کیا جارہا ہے جن میں سراج الحق حقانی اور ملا یعقوب قابلِ ذکر ہیں۔آئندہ مہینوں میں اولسی جرگہ کے انعقا دسے قبل کسی شورائی نظام کا ڈھانچہ ترتیب دیا جائے گا جو شریعت پر مبنی ہوگا۔ انتخابات ، جدید عدلیہ، منتخب مقننہ، غیر سیاسی انتظامیہ اور انسانی حقوق بشمول خواتین کے حقوق جیسے معاملات کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہوگی جو جدید مہذب معاشروں کا طرہ امتیاز ہے۔ ان اقدامات سے ایک شراکتی سیاسی نظام حکومت کی نفی ہوتی نظر آرہی ہے جس کی عالمی پذیرائی مشکل ہے ۔افغانستان کا قومی شیرازہ بکھر سکتا ہے اور پنج شیر یوں کی پسپائی کے باوجود خانہ جنگی کبھی بھی بڑھ سکتی ہے۔ یہ عالمی واہمہ کہ طالبان 2ایڈیشن پچھلے سے بدلا بدلا ہوگا جلد دور ہوجائے گا۔ اب امارات شریعت کا فیض پائے یا دنیاوی آلائشوں سے آلودہ ہو۔ فیصلہ مشکل ہے۔ روایتی اور جدیدیت کا تضاد اب افغانستان کا بڑا مسئلہ بننے جارہا ہے جس میں ملا لوگ قدامت و روایت کی جانب مراجعت کریں گے تو جدیدیت پسند یا عملیت پسند عناصر دنیا داری کا دھندہ کریں گے۔

بطور ریاست امارات اسلامیہ افغانستان کے مستقبل کا دارومدار عالمی قوانین، کثیر القومی اداروں اور عالمی برادری کے ساتھ تعلق اور ’’بیرونی امداد‘‘ پر ہوگا۔ اس وقت دنیا بھر کے بڑے دارالحکومتوں اور عالمی اداروں میں اس پر غور ہورہا ہے۔ طالبان کی حکومت کو فوری طور پر ایک جائز حکومت تسلیم کرنے میں وقت لگے گا۔ البتہ عبوری طور پر طالبان سے عملی تعاون کی شرائط پر بات چیت کا سلسلہ دوحہ میں جاری ہے۔ دلچسپ کروٹ یہ ہے کہ قطر طالبان سے مذاکرات کا مرکز بن گیا ہے اور تمام سفارتی سرگرمیاں اسلام آباد کی بجائے دوحہ میں جاری ہیں۔ مہاجرین کے نئے ریلے سے مضطرب مغربی ممالک پاکستان سے رجوع کر بھی رہے ہیں تو بنیادی طور پر افغان مہاجرین کی یہاں پناہ گزینی کے لئے یا پھر طالبان حکومت بارے عالمی تحفظات دور کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے۔ اب پاکستان کا طالبان پہ کتنا اثر و رسوخ برقرار رہے گا؟ اس کا دارومدار پاکستان کی افغانستان کی اداراتی معاونت خاص طور پر سول و ملٹری سروسز کی بحالی کی قوتِ محرکہ پہ ہے۔ یہ اتنی بھی نہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کو مضبوط پٹہ ڈالا جاسکے اور ڈیورنڈلائن کو ان سے منوایاجاسکے۔ بہر کیف اسلامی امارات کا مستقبل ایک پسماندہ، دست نگر اور قدامت پرست ریاست کا ہے۔ اس کو گزر اوقات اور معاشی بقا کے لئے یا تو مغرب کی شرائط کو قبول کرنا ہوگا جو ظاہر ہے بہت کٹھن ہوں گی یا پھر شریعت سے فیضیاب ہوتے ہوئے روکھی سوکھی پرگزارہ کرنا ہوگا۔ لیکن افغانوں میں دنیاوی رغبت کے ساتھ ساتھ خود کو اپنے مفاد کے لئے بدلتے رہنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ وہ بیس سال پیچھے جانے کی بجائے آگے بڑھنا چاہیں گے۔

اب جہاد و قتال ختم ہوا اور طالبان کے پاس دہشت گردی ختم کرنے، افیون کی پیداوار روکنے اور افغان مہاجروں کا سیلاب روکنے کے علاوہ دنیا کو بیچنے کے لئے کچھ بھی تو نہیں۔ اب جنگ معاشی، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر لڑی جا رہی ہے۔ کیا امارات اسلامیہ اس کی نذر ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں؟

تازہ ترین