• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیساکھ کی دھوپ میں ، جب دور نیلگوں آسمان زمین پر جھک کر تا حد نظر پھیلی گندم کی سنہری بالیوں سے گلے ملتا ہے اور پر اسرار خاموشی میں فقط درانتیوں کے چلنے اور گاہے کوئل اور فاختہ کے پر سوز گیت دلوں کے تار چھیڑتے ہیں …کیا آپ نے کبھی ایسے شاعرانہ ماحول میں درانتی سے گند م کی فصل کاٹتے ہوئے ، شارٹ بریک لے کر ،کھیت کے کنارے گھنے پیڑ کی چھائوں میں رکھے کورے گھڑے سے پانی پیا ہے ؟ دوپہر کو اسی گھنی چھائوں میں زمین پر بیٹھ کر گھر کے مکھن سے چپڑی تندور کی روٹی اور لسی کا لنچ کر کے ،کچی مٹی پرلیٹ کر ذرا دیر کو سستایا ہے اور سہ پہر کے وقت اسی شجر کے سائے میں لکڑیاں جلا کر گڑ کی چائے بنائی ہے ؟ …ہم نے ماضی میں یہ سارے کام کئے ہیں ۔ تبھی توآپ شہر کے اہل تہذیب ہم لوگوں کو پینڈو اور ہمارے اس نوع کے ’’شاعرانہ ماحول‘‘ کو احمقانہ ماحول کہتے ہیں ۔
صبح کے 9بجے ہیں ۔ ہمارے گھر کے سامنے ، سڑک کے اس پار ایک کھیت میں جدید ہارویسٹر گندم کی فصل کاٹ رہا ہے اورساتھ ہی بھوسے کو الگ کر کے گندم کے دانے اپنے وسیع ’’پیٹ‘‘ میں محفوظ بھی کر رہا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس دیوہیکل مشین نے ایک وسیع قطعہ اراضی میں لہلہاتی سنہری فصل کا کریا کرم کر دیا ہے۔دوپہر تک ایک گھر کے ’’بھڑولے‘‘ گندم کے دانوں سے بھر چکے ہوں گے اوراگرچاہیں تو اس گھر کے مکین آج شام کی روٹی اسی گندم کے آٹے سے کھا سکتے ہیں ۔ فصل کاٹ کر سنبھالنے کا یہ جدید اسلوب ان لوگوں کیلئے حیرت انگیز ہے کہ ماضی میں جن کا پسینہ ان ڈیڑھ دو ماہ تک کھیتوں اور کھلیانوں میں کبھی خشک نہیں ہوتا تھا ، تب جا کر وہ گندم کے دانے گھر لانے کے قابل ہوتے تھے ۔فصل سنبھالنے کے یہ دن اتنے مصروف شمار ہوتے تھے کہ مثل مشہور تھی کہ اس موسم میں جاٹ کی ماں مر گئی تو اس نے میت کلہوٹے (بھڑولے) میں چھپا دی تھی۔
ماضی پرستی تو ویسے بھی ہماری گھٹی میں شامل ہے ، تو کیوں نہ گزرے وقتوں کے اس موسم کی کچھ یادیں آپ سے شیئر کی جائیں ،جن سے آپ تو کجا ،آج ہم دیہاتیوں کے بچے بھی نا آشنا ہیں ۔ آپ نفاست پسند شہریوں کے نفیس بچے تو خیر کل بھی ریشم و کمخواب میں پلتے تھے اور آج بھی ،مگر انقلابات ہیں زمانے کے کہ ہم مضافاتی جو مٹی میں مٹی ہوکر بڑے ہوئے ہیں ، اب ہمارے نیم نفیس بچے بھی تھریشر کے شور اور بھوسے کی ’’کری‘‘ سے الرجک ہیں ۔ البتہ کل جب ہمیں کوئی بیس من گندم کی بوریاں باہر سے اٹھا کر گھر میں پہنچانا تھیں تو ہم نے میٹرک کے طالب علم اپنے بیٹے نوفل علی خان سے مدد کی درخواست کی ۔ جب ہم دونوں باپ بیٹوں نے مختصر وقت میں یہ بوریاں اٹھا کر اپنے گھر کے برآمدے میں رکھ دیں ، تب ہم نے سوچا کہ بے وقوف جاٹ کا خون نسلوں تک جاٹ ہی رہے گا۔ کیا آپ جیسے اشراف اہل شہر کا مہذب بچہ ایسے مشقت طلب اور فضول کام کا سوچ بھی سکتا ہے ؟ بس اسی لئے ہم ترقی نہیں کر سکتے جناب کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم مزدور کی طرح بوریاں تو اُٹھا سکتے ہیں لیکن چھری کانٹے سے کھانا کھانے کا طریقہ آتا ہے ،نہ چائے میں بسکٹ ڈبوئے بغیر انہیں کھانے کا سلیقہ ۔ خیر، آپ کی اور ہماری زندگیوں میں اس کھلے تضاد کا تذکرہ کسی اور موقع کیلئے اٹھا رکھتے ہیں ۔ اس وقت یہ عرض کیا جا رہا تھا کہ پہلی بیساکھ کو علی الصبح جاٹ دیسی گھی کے گھونٹ بھر کر درانتیاں اٹھا لیتے تھے ۔ اس سے قبل ہم بد ذوق بارانی چیت یعنی بہارکی دلفریب رُت کا لطف اٹھانے کی بجائے اپنی درانتیوں کے تھیلے اٹھائے،انہیں تیزکرانے لوہاروں کی دکانوں پر پہنچ جاتے تھے ۔ پھر فصل اٹھانے کا لمبا سالانہ سفرشروع ہوجاتا۔ زمیندار اور کاشتکار گھرانوں کے مرد، عورتیں اور بچے صبح سے شام تک کھیتوں میں درانتیوں سے فصل کاٹتے نہ تھکتے تھے ۔ ہمارے ایسے نام نہاد بڑے گھرانوں کی خواتین تو کھیتوں میں نہیں جاتی تھیں ، البتہ ہم بچوں پر ایسی کوئی ’’پابندی‘‘نہیں تھی ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس موسم میں اسکول سے چھٹیاں کرنا بالکل ’’لیگل‘‘ تھا۔ کبھی کسی بڑے کھیت سے اجتماعی طور پر فصل اٹھانے کیلئے ’’منگالی ‘‘ یا ’’ونگار‘‘مانگی جاتی اور برادری کے تمام افراد اپنی اپنی درانتیاں اٹھائے فصل کاٹنے پہنچ جاتے ۔ ایسے پر مسرت مواقع پر ڈھول کا انتظام بھی ہوتا تھا اور شام کو حلوہ بھی لازم تھا ۔
فصل کاٹنے کے بعد گندم کے تنکوں سے رسیاں بنا کر اُسے وہیں گانٹھوں کی شکل میں باندھ دیا جاتا اور بعد میں بغیر سینگوں والے ایک جانور پر لاد کر کھلیانوں میں پہنچا دیا جاتا ، جہاں فصل کے بڑے بڑے ’’پسے ‘‘ لگا ئے جاتے ۔پھر باری باری برادری کے ہر گھر کی گندم مل کر گاہی جاتی ۔ یہ’’گاہ‘‘ مینول طریقے سے عمل میں آتا کہ فصل کو کھلیان پر کھلار کر اور جانوروں کے پیچھے جھاڑیوں سے بنے ’’ڈِھنگر‘‘ باندھ کر انہیں بڑے سے دائرے کی شکل میں فصل پر گھمایا جاتا ۔ پھر قبر کی شکل کی ایک بڑی سی ’’دَھڑ‘‘ لگائی جاتی اور ’’کرائی‘‘ اور ’’ترینگل‘‘ سے اسے فضا میں اُچھال اُچھال کر گندم کو بھوسے سے الگ کیا جاتا ۔ ’’کھلاڑے‘‘ میں چارپائیوں کو دائرے کے شکل میں باندھ دیاجاتا اور بھوسہ ان کے اندر ڈال کر اور لتاڑ لتاڑ کر گنبد نما ’’بوھاڑے‘‘ بنالئے جاتے جبکہ گندم کو گھر میں مٹی سے بنے ’’کلہوٹوں ‘‘ اور ’’گہیوں‘‘ میں ڈال دیاجاتا ۔ اس سے قبل کھلیانوں میں گندم کی مقدار شماری کا دلچسپ طریقہ رائج تھا ۔یہ مقدار لکڑی یا لوہے سے بنے ایک ’’چہا‘‘ نامی برتن سے شمار کی جاتی ، جس میں تین سیر گندم آ جاتی تھی ۔تمام بزرگ با وضو ہوکر کھلیان میں زمین پر بیٹھ جاتے ،جہاں ننگے سر کسی بچے کی بھی رَسائی ممکن نہ ہوتی تھی ۔ ایک معتبر بزرگ گندم کے ڈھیر سے چہا بھر بھر کر ایک الگ ڈھیری لگاتا جاتا اور باآواز بلند چہائوںکی گنتی کچھ اس طرح کرتا’’ برکت بسم اللہ ، دو بسم اللہ ، تین بسم اللہ …‘‘ سولہ چہاکی ایک پائی اور دس پائی کا ایک خلوار شمار ہوتا تھا ۔ ایک اور اَن پڑھ مگر اپنے تئیں جہاندیدہ بزرگ جھاڑو کے ’’تیلے‘‘ ہاتھ میں لے کر بغور اس عمل کو دیکھتا جاتا اور ہر دفعہ سولہ چہا کے بعد ایک تیلا الگ کردیتا۔اس موقع پر تمام دستکار بھی پہنچ جاتے اور زمیندار ہر کسی کو اس کا مقررہ حصہ دیتے ۔ نائی ، موچی ، کمہار ، ترکھان، لوہار ، جولاہے ،دھبے ، خادم مسجد اور امام مسجد اس گندم کے عوض سارا سال اپنے اپنے شعبے میں گائوں بھر کیلئے خدمات انجام دیتے تھے ۔ زندگی میں روپے پیسے کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا ،حتیٰ کہ اکثر گھر کا سودا بھی جو فقط ماچس ،گڑ ، پتی اور پھول صابن پر مشتمل ہوتا ،وہ بھی انہی دانوں کے عوض دکان سے خریدا جاتا تھا۔یہ مثل اسی دور کی ہے کہ ’’جس کے گھر دانے ،اس کے کملے بھی سیانے ‘‘ جس کے گھر جتنے زیادہ گندم کے دانے ہوتے وہ اتنا ہی بڑا رانی خان تھا کہ لوگ اس کے دست نگر تھے۔
اب تو خیر ان دیہات میں بھی وقت یوں تبدیل ہوا ہے ،جیسے کوئی تنگ دست پیشہ ور عاشق جیب بھر جانے پر محبوب بدلتا ہے ۔ جو باہمی محبتیں کچے گھروندوں کا خاصا تھیں ،وہ پختہ مکانوں میں آ کر ناپید ہو گئیں کہ نفس فربہ ہوئے تو دل سکڑتے چلے گئے ۔زمینیں امیر ہوئیں تو ذہن غریب ہو گئے۔ کاشت کیلئے ہل کی جگہ ٹریکٹر آیا، فصل کاٹنے کیلئے درانتی کی جگہ ٹریکٹر کا دیسی بلیڈ آیا، تھریشر آیا اور اب ولایتی ہارویسٹر۔جدید مشینری نے ہماری زمینداری تو آسان کردی ہے لیکن ہماری زندگی کے کچھ دلفریب سے رنگ بھی ہم سے چھین لئے ہیں۔ہمارا بیساکھ پیچھے رہ گیا ہے ، ہم بہت دُور نکل آئے ہیں۔
تازہ ترین