• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری نعت کا پہلا شعر ہی شکوہ نما ہے

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا

صحابہ رضوان ﷲ علیھم اجمعین تو صحابہ ہیں ہی اور پھر ان میں سے وہ جنہیں آپ ؐ کی طرف سے جنت کی بشارت نصیب ہوئی ہو لیکن ان میں سے بھی ایک میں ایک عجیب سی کشش اور پر اسراریت ہے جو مجھے اکثر مسحور کر دیتی ہے ۔یہ ہیں سیدنا سلمان فارسی ؓ جن کے بارے حضور ؐ نے فرمایا تھا۔

’’بے شک جنت تین لوگوں کی مشتاق ہے ۔ علی، عمار اور سلمان فارسی ‘‘

خود فرماتے ہیں ’’میرے والد نے لڑکیوں کی طرح مجھے گھر میں قید کرکے رکھا اور مجوسیت پر میری تربیت ہوئی اور مجھے آگ کا نگران بنا دیا گیا جو اسے ہر وقت جلائے رکھتا تھا اور کبھی بجھنے نہیں دیتا تھا‘‘۔

پھر ایک روز گزر عیسائیوں کے گرجے سے ہوا، وہ عبادت میں مشغول تھے آپ نے دیکھا تو بہت پسند آیا اور سوچا کہ ہمارے مذہب (مجوسیت) سے ان کا مذہب بہت بہتر ہے ۔پھر کسی سے پوچھا یہ مذہب کہاں سے سیکھ سکتا ہوں ۔جواب ملا ’’شام سے‘‘ کچھ عرصہ بعد کسی قافلے کے ساتھ شام پہنچ گئے جہاں ایک پادری کی خدمت میں جت گئے تاکہ مذہب سیکھ سکیں لیکن وہ ایسا لالچی تھا، جو صدقہ خیرات سے چوری کرکے سات قلے (مٹکے) سونا چاندی جمع کر چکا تھا ۔پھر جب وہ مر گیا تو ایک اور پادری سے رشتہ جوڑ لیا جو بہت ہی نیک تھا ۔جب اس نیک پادری کا وقت آیا تو اس نے حق سچ کی تلاش میں سرگرداں سلمان سے کہا ’’اے میرے بچے !لوگوں نے اپنے مذہب کو بدل کے رکھ دیا ہے البتہ موصل میں فلاں آدمی آج بھی اس پر قائم ہے ۔تو وہاں چلا جا ‘‘ پھر آپ موصل والے پادری کے پاس اس کی وفات تک رہے اس نے اپنی وفات سے پہلے نصیبین بھیج دیا جہاں کا پادری شرافت، نجابت، عبادت کا پیکر تھا۔جب اس کا وقت قریب آیا تو اس نے بے چین و بے قرار سلمان کو عموریہ (روم) بھیج دیا اور اسے بھی بہترین پایا لیکن سلمان فارسی ؓ کو وہ سکون نہ ملا جس کی تلاش تھی اور پھر جب ان صاحب کی وفات کا وقت آیا تو اس نے اپنے اس صالح شاگرد سے کہا ’’بیٹا! اب تو کوئی ایسا نہیں بچا جو اس مذہب پر صحیح طور قائم ہو، ہاں البتہ ایک نبی کے ظہور کا وقت آ گیا ہے جو دین ابراہیمی لائے گا اور عرب کی زمین پر اس کا ظہور ہو گا اور وہ سیاہ پتھروں والی زمین جو کھجوروں والی ہے، کی طرف ہجرت کرے گا ۔ وہ ایسا شخص ہو گا جو صدقہ نہیں کھاتا ہو گا صرف ہدیہ کا مال کھائے گا ۔ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان ’’ختم نبوت‘‘ کی مہر ہو گی سو اگر ممکن ہو توعرب کی طرف چلے جائو ‘‘۔

سلمان فرماتے ہیں ’’صاحبِ عموریہ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد میں کلب قبیلہ کے تاجروں کے قافلہ میں شامل ہو گیا۔وہ مجھے اپنے ساتھ وادیٔ القریٰ (مکہ مکرمہ) لےآئے جہاں انہوں نے مجھ سے سب کچھ چھین کر تشدد کے بعد مجھے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا اور یوں میں غلام بن گیا ایک دن اسی یہودی کا چچا بنو قریظہ (مدینہ) سے آیا اور مجھے خرید کر مدینہ لے گیا تو میں فوراً پہچان گیا کہ یہی وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں صاحب عموریہ نے مجھے بتایا تھا‘‘۔

قارئین ! یہاں تک پہنچ کر آدمی دم بخود لیکن قائل ہو جاتا ہے کہ بیشک ﷲ دل میں وہ خواہش ہی پیدا نہیں کرتا جس کی تکمیل کے جذبے اور رستے تعمیر نہیں کرتا۔بغیر کچھ جانے، حضرت سلمان فارسی ؓ جانتے تھے کہ انہیں کہاں جانا ہے، دربدر نے گھر ٹھکانہ ڈھونڈ لیا، غلام نے کائنات کا حسین ترین و عظیم ترین آقا پاکر آزادی کی آخری حدوں کو چھولیا۔ پھر آپ نے چپکے چپکے اس محبوب کی تلاش شروع کر دی جسے کبھی دیکھا تک نہیں تھا نہ ان کے نام سے واقف تھے ۔پھر سن سنا کر حضورؐ تک پہنچے اور نشانیوں کی کھوج میں چادر اوڑھے آقا کے قریب منڈلانے لگے ۔آپ ؐ نے خود ہی چادر ہٹا دی تو آپ حضورؐ سے لپٹ کر رونے لگے ۔آپ نے سلمانؓ کو سامنے بٹھایا تو غلام نے آقا کو ابتدا سے انتہا تک اپنی کہانی سنائی اور پھر سیدنا سلمان ؓ نے غزوہ بدر سے غزوہ احد تک غلامی کی حالت میں ہی شرکت فرمائی،بعدازاں آزاد ہوئے ۔

سیدہ عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ سلمان ؓ رسول ﷲﷺ کے ساتھ رات بھر اتنی مجلس کیا کرتے کہ ہم کو ڈر ہوتا کہ سلمان تو آپ بارے ہم پر بھی غالب آ گیا اور جب جنگ احزاب کا موقع آیا تو خندق کا مشورہ سیدنا سلمان نے ہی دیا تھا ۔خندق کی کھدائی شروع ہوئی تو مہاجرین و انصار آپس میں بحث کرنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں، سلمان ہم میں سے ہیں تو آقاؐ نے فرمایا ....

’’سلمان منا اھل البیت‘‘

’’سلمان ہم اہل بیت سے ہے ‘‘

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا

مجھ پہ پڑتی جو تیری چشم کرم

آدمی کیا میں معجزہ ہوتا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین