• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23 اگست 2021 کی شام کابل کے علاقے کارت پروان میں پاکستانی سفارتخانے سے باہر نکلا تو پینٹ شرٹ میں ملبوس خوش شکل نوجوان نجیب سے ملاقات ہوگئی۔ نجیب کی کہانی بڑی افسوسناک تھی، اس نے ابھی کابل کی امریکن یونیورسٹی سے گریجویشن کرکے اپنے سہانے مستقبل کے خواب بنے ہی تھے کہ افغانستان میں طالبان آگئے اوراس کا خاندان تقسیم ہوگیا۔نجیب کی چاربہنیں اورچاربھائی ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس کا ایک بھائی ترکی تو دوسرا امریکہ جا چکا ہے۔ باقی خاندان کے لوگ پاکستان جارہے ہیں۔ اس نے بھرائی آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ اس کا خاندان بکھر گیا ہے اور وہ بے بس کھڑا کچھ کرنے سے قاصرہے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ وہ فکر نہ کرے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ بولا کہ اسے ایسا کچھ نہیں لگتا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا کہ طالبان یہ ملک نہیں چلا پائیں گے۔ جب وجوہات جاننے کی کوشش کی تووہ بولا کہ سب سے اہم مسئلہ اعتماد کا ہے، پڑھے لکھے لوگ طالبان پراعتماد کرتے ہیں اور نہ ان کے پاس حکومت چلانے کی صلاحیت ہے۔

نجیب کی بات شاید میرے ذہن کے کسی خانے میں بیٹھ گئی۔ اب میں افغانستان میں ہرتبدیلی کوجانے انجانے میں طالبان کی صلاحیت سے ماپنے لگاہوں۔ سب سے بڑی مایوسی تو یہ ہوئی کہ طالبان کی معیشت اورگورننس کے شعبوں میں بظاہر کوئی مہارت نہیں ہے۔ ابتدا میں طالبان کی طرف سے مرکزی بینک کا گورنرایسے شخص کو تعینات کیا گیا جو معیشت کی الف ب نہیں جانتا تھا۔ پھر میں نے غور کیا کہ طالبان کو عوامی اجتماعات اور احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کا طریقہ نہیں آتا، اسی لئے جہاں احتجاج ہوتا اکثرطالبان کی طرف سے ہوائی فائرنگ کرکے اس سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی۔ وقت گزرا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ معاملے کو جانچنے کا ایک سادہ طریقہ ہے۔ اس معاملے کو مزید وسعت اورسنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دنیا بھر میں جاری اسلامی تحریکوں کو ایک نئی تقویت ملی ہے۔ ایک طرف اسلام پسند قوتوں کی اکثریت طالبان کو ایک نمونے کے طورپرپیش کررہی ہے تو دوسری طرف اسلام مخالف قوتیں اسے ایک نیا خطرہ تصورکررہی ہیں۔ بظاہر چین کا نام نئے خطرے کے طورپرببانگ دہل لیا جارہاہے مگر اس کے ساتھ افغانستان کے تناظرمیں طالبان یاسیاسی اسلام بھی ایک خطرے کے طورپرسرگوشیوں میں موجود ہے۔ بین الاقوامی قوتیں ہوں یا علاقائی ممالک، مذہب پسند قوتیں ہوں یا مذہب بیزار، سب کی ایک تشویش مشترک ہے اور وہ یہ کہ کیا طالبان افغانستان حکومت کوکامیابی سے چلا پائیں گےیا نہیں؟ اگرطالبان حکومت کامیابی سے چلا پائے توخطہ امن کا گہوارہ ہوگا اورترقی کے ثمرات سے سب مستفید ہونگے لیکن اگرایسا نہ ہوپایا تو سب سے پہلے افغانستان کے 6 پڑوسی ممالک یعنی پاکستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اورازبکستان اورپھر دنیا بھرکومختلف انداز میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔پہلے تو یہ دیکھ لیں کہ حکومت کو کامیابی سے چلانے کے لئے وہ کون سے شعبے ہیں، جن میں طالبان کو کارکردگی دکھانا ہوگی۔ میرے محدود علم کے مطابق وہ تین ہیں اول معیشت، دوئم، مقامی، علاقائی و بین الاقوامی امن عامہ اورسوئم انسانی حقوق۔

معیشت کی صورتحال یہ ہے کہ اگست کے مہینے سے افغان وزارت دفاع، خارجہ، اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد سمیت اہم اداروں کے ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔ افغان حکومت نے بلدیہ، محکمہ ڈاک، بجلی اورچند دیگر چھوٹے اداروں کو تنخواہ دی ہے لیکن امریکہ کی طرف سے افغان حکومت کے 9 ارب ڈالرز فریز کیے جانے کے بعد سے ڈالرکا افغانستان کے مرکزی بینک کے ساتھ کاروبارمعطل ہے۔ نتیجے میں افغان بینکوں میں بھی کاروبار عملی طورپربند ہے۔ پیڑول اوراشیا خورونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔

میں اس بات پر قائل ہوں کہ طالبان افغانستان میں مجموعی طورپرامن لانے کی مکمل اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ فی الحال طالبان کواندرونی طورپر داعش کے چیلنج کا سامنا ہے اگر داعش کے پیچھے کوئی ریاستی سپورٹ نہ ہوئی تویہ کم ازکم طالبان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ طالبان کیلئے القاعدہ، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ٹی ٹی پی و دیگراس وقت مسئلہ ضرور پیدا کرسکتی ہیں کہ جب ان جماعتوں میں سے کسی نے بین الاقوامی یا علاقائی طورپرکسی عسکری کارروائی میں حصہ لیا اورتحقیقات کے نتیجے میں اس کے تانے بانے افغانستان سے نکل آئے۔ ایسے میں تمام طالبان مخالف قوتیں ان کی حکومت ختم کرنے کے درپے ہوجائیں گی۔طالبان کی طرف سے عالمی سطح پر جو تشویش سب سے زیادہ پائی جاتی ہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ طالبان نے عورتوں کے حالیہ احتجاجوں کو جس اندازسے روکا ہے اس سے دنیا بھر میں ان کے بارے میں پہلے سے موجود تشویش میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ یہ معاملہ بھی عالمی سطح پرایک بڑا بحران پیداکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے مہذب جمہوری انداز کی بجائے بندوق کے بل بوتے پرحکومت حاصل کی ہے لیکن شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ انہیں حکومت کی شکل میں ایک سزا دی گئی ہے تاکہ وہ غلطیاں کریں اوران کا ناطقہ بند کیا جائے۔ ہمیں اچھا لگے یا برا، اقتدارطالبان کے پاس ہے انہیں چاہئے کہ وہ تمام ناراض افغانوں سے رابطہ کرکے انہیں حکومت میں شامل کریں۔ معیشت، امن اورانسانی حقوق کے اموراپنے ہاتھ میں رکھنے کی بجائے یہ ذمہ داریاں ماہرین کو دیں تاکہ افغان عوام خوف سے نکل کر اعتماد کی فضا میں آئیں اور افغانستان دنیا میں ناکام کی بجائے ترقی کی راہ پرگامزن ریاست کے طورپرنمایاں ہو مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے بھی ہیں یا نہیں؟ وقت جلد یا بدیراپنا فیصلہ سنا دے گا۔

تازہ ترین