کم سے کم اپنی حد تک تو یہ بات ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیںکہ گزرتا ہوا وقت آدمی کی حیرتیں بڑی حد تک سمیٹتا چلا جاتا ہے اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ حیرت سے دوچار ہونے کی صلاحیت ماند پڑتی جاتی ہے۔
یوں تو حیرت کا تجربہ ہمیں کسی نہ کسی درجے میں ہر بڑے شاعر کے یہاں ہوتا ہے، اور اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے اردو ہی نہیں عالمی شعری منظرنامے سے زبان اور ثقافت کی تخصیص سے قطعِ نظر کتنی ہی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، اور ہمارے یہاں میر کا معاملہ سب سے بڑھ کر ہے۔ ظاہر ہے، اس کی ایک نہیں، کئی ایک وجوہ ہیں۔ مضمون یا موضوع کی کائنات گیر وسعت، فکر کی گہرائی، طرزِ ادا، بیان کا لطف، مصرعے کی چُستی، ترکیب، بندش، لہجہ اور خدا جانے کیا کیا کچھ۔ اب ان میں سے کسی بھی نکتے کو پیشِ نظر رکھ لیجیے اور اٹھائیے دیوان میر کا۔ ورق الٹتے جائیے۔ بس ایک اچٹتی ہوئی نظر بھی یہ بتانے سمجھانے کے لیے کافی ہے:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
میر کے یہاں یوں ہی ورق گردانی میں بھی کوئی نہ کوئی ایسا شعر مل جاتا ہے، جس کی تفصیل و شرح کے لیے ایک الگ دفتر درکار ہے۔ موضوع کی باریکی، فکر کی گہرائی اور صنائع بدائع تو اساتذہ کے دیکھنے بیان کرنے کی چیز ہیں، انھیں ایک طرف رکھ کر ہم صرف لہجہ دیکھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ شاعر کے لہجے کی تشکیل الگ سے کہیں نہیں ہوتی، بلکہ اس کے موضوع اور فکری رویے کا بھی اس میں اہم کردار ہوتا ہے، اور پھر صنائع بدائع تو بالخصوص لہجہ بنانے میں پوری طرح شریک ہوتے ہیں، لیکن ہم ان سب چیزوں سے صرفِ نظر کر لیں اور شعر بھی وہ منتخب کریں جس میں بظاہر کوئی ایسی باریکی نہ ہو اور جو دقتِ نظر کا متقاضی بھی نہ ہو اور پھر شعر کو سمجھنے کے لیے زاویے بھی وہ سامنے رکھیں جو روزمرہ زندگی کی سادگی میں لہجے کو دیکھنے کے لیے ہوسکتے ہیں، تو بھی یہ امر حیرت کا باعث ہوتا ہے کہ بادی النظر میں ایسی سادہ، سامنے کی بات کو بھی میر نے کس طرح کہا ہے کہ رنگ سے جھلملاتے چلے جاتے ہیں اور بات قوسِ قزح کی طرح کھلتی ہے۔ اب دیکھیے، میر صاحب فرماتے ہیں:
نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
آپ مصرع کو جس طرح، جتنی بار اور چاہے جس لفظ پر زور دے کر پڑھیے، اس کے معنی کی ایک نئی پرت آپ کے سامنے آجائے گی۔ ایک نیا رنگ سا نکھرتا اور ابھرتا محسوس ہوگا۔ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ لہجے کی حلاوت دل کی شریانوں میں اترے جاتی ہے۔ کہیں آواز کا زیرو بم اپنے مدھم سروں میں یوں جذب کرے گا کہ دنیا کے سارے ہنگاموں، ہڑبونگ اور شور شرابے سےدھیان ہٹ جائے گا۔ ایک موسیقی آپ کے لہو کی تال سے ہم آہنگ ہو کر آپ کے احساس کا ردھم بنا دے گی۔ اب ذرا یہ دیکھیے کہ اس لہجے کا آپ کی کیفیت پر کیا اثر ہے۔
آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی خاموشی جیسے لبِ گویا ہوگئی ہے، آپ کے خیال کی تجسیم ہوگئی ہے، اور یوں انسانی وجود کی نزاکت اور لطافت کا وہ رُخ سامنے آیا ہے کہ جس کی طرف کبھی اس سے پہلے آپ کا دھیان ہی نہیں گیا تھا، اگرچہ بات بالکل سامنے کی تھی۔ جذبہ جیسے ایک آواز میں ڈھل گیا ہے اور آواز کو ایک دل کش پیکر میسر آگیا ہے۔ ایک بات کہ جو پہلے کہیں دل میں یا احساس کی پرت میں تھی اور جسے خیال کا سانچا درکار تھا، میر صاحب کے اس شعر میں آکر وہ ابلاغ کے بلند ترین امکان کے ساتھ روشن ہوگئی ہے۔
یہ تو چند ایک چیزیں ہیں جن کی طرف کچھ اشارے سے کر دیے گئے ہیں۔ شعر بھی تقدیر کی طرح ہر شخص سے اپنا معاملہ الگ انداز سے کرتا ہے۔ بست و کشاد کی کیفیتیں سب پر الگ رنگ میں گزرتی ہیں۔ اس لیے کہ ادب و شعر کی قدر ہی نہیں کیفیت کا معاملہ بھی بہت داخلی نوعیت کا ہوتا ہے۔
مذکورئہ بالا شعر کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ اس کے اثر یا اس کی پیدا کردہ کیفیت کی وسعت میں اس کا دوسرا مصرع بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے لیے ان نکات کو ذہن میں تازہ کیجیے جو استعارے کے باب میں ہمارے یہاں اساتذہ نے بیان کیے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ کہ استعارے کی مدد سے شاعر مضمون بھی بناتا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ استعارے کو بجائے خود حقیقت مان کر اس سے کچھ اور نئے استعارے بھی پیدا کیے جاتے ہیں۔ اب مثلاً اس شعر میں امپلائیڈ معنی سے ہم یہ بات جان لیتے ہیں کہ محبوب کا وجود گلاب ہے تو پھر اس کے لب کو پنکھڑی کہا جائے گا۔ ہم تو شعر میں لہجے کے لطف اور اثر کو دیکھ رہے ہیں۔ اس میں زبان و بیاں کے اصولوں کا کردار کس طرح کارفرما ہے، اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
میر کا ایک اور شعر ہے:
سراپا پہ جس جا نظر کیجیے
وہیں عمر ساری بسر کیجیے
بہت سادہ اور سامنے کا شعر ہے۔ پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ اس شعر کی لطافت اور معنویت کا انحصار بھی اس کے پڑھے جانے پر ہے۔ مصرعِ اولیٰ و ثانی دونوں کو آپ جس طرح پڑھتے ہیں، ان میں جس لفظ پر زور دیتے ہیں، وہ آپ کے سامنے ایک منظر سا روشن کر دیتا ہے۔ یعنی سراپا، جا، نظر، وہیں، عمر، بسر— ہر لفظ اپنی جگہ معنویت کا ایک دائرہ ہے اور حواس اور تخیل کو مہمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا جس طرح کسی لفظ کو ادا کیا جائے گا، اسی طرح کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
ذہن کے پردوں پر رنگ و نور کا تناسب اسی کے تحت اپنا اثر دکھاتا ہے، احساس کی لہروں کے مدوجزر کا تعین بھی اس سے ہوتا ہے اور کیفیت کی تشکیل بھی اسی کے تحت ہوتی ہے، معنویت کا دائرہ بھی اسی سے وسعت پاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ آپ اس شعر سے جو لطف و معنی کشید کرتے ہیں، وہ باہر کہیں سے فراہم نہیں ہوتے، بلکہ آپ کی قرأت ہی ان کا تعین کرتی ہے، اور قرأت کا یہ قرینہ میر کا لہجہ عطا کرتا ہے۔
سطورِ بالا میں دیے گئے دونوں اشعار رومانی رنگ کے حامل ہیں۔ خیال کیا جاسکتا ہے کہ اس نوع کے اشعار کا مضمون پہلے ہی مرحلے میں اپنا ایک رنگ پیدا کر لیتا ہے، اس کے بعد کی چیزیں خود اسی کے اثر میں نمایاں ہوتی ہیں۔ تو اب ذرا یہ اشعار دیکھیے، ان میں تو کوئی بھی رومانی کیفیت کا حامل نہیں ہے:
وجہِ بیگانگی نہیں معلوم
جہاں کے تم ہو واں کے ہم بھی ہیں
———
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میر
سرِ منصور ہی کا بار آیا
———
جہاں اب خارزاریں ہوگئی ہیں
وہاں آگے بہاریں ہوگئی ہیں
———
سب یہ جس بار نے گرانی کی
اسے یہ ناتواں اٹھا لایا
———
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میر کا طور یاد ہے ہم کو
ان میں ایک بھی ایسا شعر نہیں ہے، جس کا مضمون اوّلیں مرحلے میں اپنا رنگ یا اثر ابھار دے۔ یہ سب کے سب رفتہ رفتہ کھلنے والے اشعار ہیں۔ ان میں لہجے کا آہنگ بھی ایک جیسا نہیں ہے، الگ الگ ہے۔ کہیں نرمی اور دھیمے پن سے ایک بات کہی گئی ہے، کہیں سادگی سے ایک استفسار ہے جس میں بین السطور حقیقت کا ادراک بھی بیان ہو رہا ہے، کہیں عشقِ حقیقی اور مادی سماج کے ناگزیر ٹکرائو کی طرف اشارہ ہے، کہیں جذبے کی صلابت کا اثبات ہے اور کہیں ذاتی کیفیت کو ایک طرزِ حیات کے طور پر بیان کیا ہے— ایسے مختلف النوع مضامین اور ان کے لیے لہجے کی ایسی رنگا رنگ صورتیں۔
ان اشعار کو مختلف انداز میں پڑھ کر دیکھیے، ان کے اثرات دل و دماغ پر، مزاج پر، طبیعت اور رویے پر الگ الگ طرح کے ہوں گے، اور ان کی کیفیت اور اثر کا گراف بھی آپ کو الگ الگ سطح پر ملے گا۔ اصل میں طلسماتِ میر کا ایک در اُن کے لہجے کے اسمِ اعظم سے بھی کھلتا ہے، اور جب ہم اس میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارے اندر اور باہر کی کائناتیں اپنے رازوں سے پردے اٹھانے لگتی ہے۔ میر کے انفرادی نشانات میں ایک یہ اعجاز بھی ہے۔