• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شدید بیماری اور نقاہت کی وجہ سے گزشتہ ہفتےکالم تحریر نہیں کرسکا۔قارئین اور احباب سے دعائے صحت کی گزارش ہے۔بیماری ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر ذی روح کا کبھی نہ کبھی واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ اللہ کریم مجھ سمیت تمام مریضوں کو صحت اور زندگی عطا فرمائے۔

اس وقت پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان میں غیر یقینی صورتحال ہے۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان سے ساری دنیا کو مثبت امیدیں ہیں۔ تاحال ان کے وعدوں پر عملدرآمد مکمل طور پر نظر تونہیں آرہا البتہ اس بار طالبان کی طرف سے وہ سختی نظر نہیں آتی جوان کے سابقہ دور حکومت میں تھی۔ طالبان سے افغانستان کے اندر خواتین اپنے حقوق طلب کررہی ہیں اور مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں ۔طالبان نے نہ تو خواتین کے ساتھ اس بار وہ رویہ روا رکھا ہے جوگزشتہ دور میں تھا اور جس پر ساری دنیا معترض تھی نہ ہی خواتین مظاہرین پر کسی بڑے تشدد کی خبریں ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ سوال بھی ہے کہ آخر افغانستان میں خواتین مظاہرے کیوں کررہی ہیں۔کیونکہ موجودہ طالبان کابینہ میں وعدے کے مطابق خواتین کو نمائندگی نہیں دی گئی ، سرکاری دفاتر میں خواتین کو ملازمتوں سے دور رکھا گیا ہے، اسی طرح لڑکیاں تاحال حصول تعلیم سے محروم ہیں۔طالبان نے وعدے اور بیانات کے برعکس ابھی تک مخلوط حکومت قائم کی نہیں ، تاجکوں سمیت اتحادیوں کو حکومت میں شامل نہیں کیا ۔ جبکہ اس بات کی کم ہی امید ہے کہ طالبان مخالفین کو حکومت میں شامل کریں گے۔دنیا تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ تاحال کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا نہ ہی کسی طرف سے واضح طور پر طالبان کی مدد کی کوئی پیشکش ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے طالبا ن کے ساتھ دیگر قومیتوں اور اہم افراد کو حکومت میں شامل کرنے کے لئے مذاکرات کی بات خوش آئند ضرور ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی طرف سے یہ ایک اور قدم ہے لیکن حکومت کو اس بات کاسرعام ذکرنہیںکرناچاہئے کیونکہ ایسی کوششوں کو ہمیشہ خفیہ اور درپردہ رکھاجاتا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بھی نیت پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے لیکن کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کا اعلان بھی نہیں کرناچاہئے تھا۔ یہ اعلان نہ تو پاکستانی قوم کو تسلیم ہے اور نہ ہی پاکستانی اداروں کے لئے قابلِ قبول ہوگا۔ زمینی حقیقت وزیر خارجہ کے اس اعلان کے بالکل اور قطعی برعکس ہے۔حکومتی اکابرین کے لئے قوم، اہم اداروں اور سیاستدانوں سے مشاورت کے بعد متفقہ بیان دینا زیادہ بہتر اور مناسب ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اس خطے میں حالات تیزی سے تبدیل ہونیوالے ہیں اور زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہی ملک کی بہتری ہے۔ بھارت امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔طالبان کوبھی ان حقائق کو دیکھنا چاہئے اور فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ان کے لئے نہ صرف دنیا کے دروازے کھل جائیں بلکہ وہاں امن دشمنوں کے ارادے اور منصوبے بھی خاک میں مل جائیں۔پاکستان کے اندر بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ حکومت شیخ چلی کی طرح ہر اس شاخ کو کاٹنے پر لگی ہوئی ہے جس پر اس کا قیام ہے۔ حکومتی اقدامات زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یاتو وہ ان حقائق سے بے خبر ہے یا وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر بے خبری ہے تو باخبر ہوناچاہئے اور اگر وہ حقائق کو تسلیم کرنانہیں چاہتی تو پھر وقت تو لازمی تسلیم کراتا ہے۔ ملک میں مہنگائی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزرا کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی ہے تو لوگوں کی قوت خرید میں بھی تو اضافہ ہوا ہے۔ اس پر کیا کہا جائے اگر محترم وزرا یہ بھی بتا دیں کہ لوگوں کی قوت خرید میں کس طرح اضافہ ہوا ہے تو یہ بھی عوام پر احسان ہوگا کیونکہ عوام کو تواس خوشخبری اور اتنی بڑی ’’تبدیلی‘‘ کاعلم ہی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے جس طرح کچھ عرصہ قبل وزیر دفاع پرویز خٹک نے بطور دعویٰ فرمایا تھا کہ صوبہ کے پی کے میں نہ تو کوئی بے روزگار ہے نہ کوئی کچا مکان ہے بلکہ وہاں کے ہر باشندے کے پاس موٹر سائیکل اور گاڑی بھی ہے۔ خود ان کا تعلق بھی اسی صوبہ سے ہے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان اب جلد سونامی میں تبدیل ہونیوالا ہے۔

علم الاعداد کے مطابق ملک میں بہت بڑا معاشی طوفان آسکتا ہے اور مہنگائی میں ناقابل توقع اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ملک ایک آئینی اور سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آنیوالے چند ایک ماہ میں حکومتی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔حکومتی خواہش کے باوجود چیئرمین نیب موجودہ عہدے پر برقرار نظر نہیں آتے بلکہ اگر حکومت اپنی ضد پر قائم رہی تو یہ اُس کے لئے سبکی کا باعث بنے گا۔تحریک انصاف کے تین اہم عہدیدارتاحیات نااہل ہوسکتے ہیں اور بعض کےخلاف کارروائی کا آغاز ہوسکتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر فی الحال موجودہ عہدے پربراجمان نظر آرہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی اپنی طرف سے وطن واپسی کا عندیہ اور مسلم لیگ(ن) کے بعض عہدیدار ان کی طرف سے بیانات پر فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔سال رواںکے آخر تک نواز شریف کی وطن واپسی نظر نہیں آرہی۔ الیکشن میں ووٹنگ مشین کا استعمال بھی نظر آتا ہے نہ ہی الیکشن کے امکانات،البتہ نظام کی تبدیلی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ یہ بھی نظرآرہا ہے کہ حالات گھمبیر صورت اختیار کریں۔ مذکورہ بالا تمام اشارے علم الاعدادکے مطابق ہیں۔ باقی اللہ عظیم جب اور جوچاہے کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین