اسلام آباد (انصار عباسی) سندھ میں 20؍ ارب روپے مالیت کی سرکاری زمین کے جعلی اندراج کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے لیکن متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی رپورٹ کے باوجود، معاملہ اب تک سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کے پاس 2019ء سے جوں کا توں پڑا ہے تاکہ مبینہ طور پر ایک با اثر نجی شخصیت کو نوازا جا سکے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف صوبائی ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت سے بھی رابطہ کرکے معاملے کو دبانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ جن افسران نے یہ معاملہ کھود کر نکالا اور حکومت کو آگاہ کیا ہے ان پر مختلف حلقوں کی جانب سے دباؤ ڈالا اور انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سرکاری زمین کو بچانے کی بجائے متعلقہ افسران کیخلاف تحقیقات شروع کرانے کیلئے نیب سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔
جعلی اندراج (فیک انٹریز) کی بنیاد پر نجی پارٹی 2082؍ ایکڑ سرکاری زمین کی دعویدار بن رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جعلی انٹریز چند سال قبل کی گئی تھیں اور مذکورہ زمین مختلف لوگوں کو فروخت کی گئی تاکہ اسے محفوظ ہاتھوں میں رکھا جا سکے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سندھ ریونیو بورڈ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ معاملہ جوڈیشل پراسیس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ریونیو ڈپارٹمنٹ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
پیر کو ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) نے سندھ کے چیف سیکریٹری سے رابطہ کرکے متعلق ریکارڈ فراہم کیا ہے اور بیس ارب روپے مالیت کی سرکاری زمین غیر قانونی افراد کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے مداخلت کی درخواست کی ہے۔ ٹی آئی پی نے اپنے خط میں نجی پارٹی کا نام بھی بتایا ہے جو جعلی انٹریز کے ذریعے سرکاری زمین پر قبضے میں ملوث ہے۔
ٹی آئی پی نے بتایا اور دی نیوز نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کیپٹن (ر) فرید الدین مصطفیٰ (ڈپٹی کمشنر جامشورو) نے یہ معاملہ 2019ء میں پکڑا تھا۔ یہ کیس تھانہ بولا خان میں 2082؍ ایکڑ زمین کا ہے۔
یہ رپورٹ کمشنر کو بھیجی گئی تھی اور اسے اصل ریکارڈ کی باریک بینی کے ساتھ تھانا بولا خان تعلقہ کے مختیار کار کے ساتھ مل کر 21؍ فروری 2019ء کو اسکروٹنی کے بعد تیار کیا گیا تھا۔
رپورٹ پر اسسٹنٹ کمشنر تھانا بولا خان کے بھی دستخط ہیں۔ انکوائری میں یہ بات سامنے آئی کہ ریکارڈ آف رائٹ دیہہ اتھپلان اور دیہہ بابر بند میں نجی پارٹی کے حق میں کی گئی انٹریاں جعلی اور بوگس ہیں اور ان میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، اور یہ جعلی انٹریاں منسوخ کی جائیں تاکہ سرکاری زمین کو بچایا جا سکے۔
چیف سیکریٹری کو ٹی آئی پی کی جانب سے بھیجے گئے خط میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نجی پارٹی اس فراڈ میں ملوث ہے اور اس نے جعلی کھاتے شاید 2008ء میں بنوائے جس کی تصدیق مائیکرو فلم ریکارڈ سے بھی ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، جعل سازی کیلئے دو طریقہ کار اختیار کیے گئے، یا تو اصل ریکارڈ موجود نہیں جس کی جگہ پر جعلی ریکارڈ شامل کر دیا گیا ہے یا پھر اصل ایریا صرف چند ایکڑ کا ہے اور پھر اسے 400؍ سے 500؍ گنا تک بڑھا کر سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔
ٹی آئی پی کے مطابق، ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ ملنے کے بعد کمشنر حیدرآباد نے 2019ء میں سیکریٹری حکومت سندھ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے رابطہ کرکے حکومت سندھ کے لینڈ ایکٹ میں وضع کردہ جعلی انٹریاں منسوخ کرنے کے قانون کی شق نمبر تین کے تحت مبینہ جعلی انٹریاں منسوخ کرنے کی استدعا کی۔
تاہم، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے جعلی انٹریاں منسوخ نہیں کیں اور ٹی آئی پی کے مطابق مختیار کار تھانا بولا خان اور اسسٹنٹ کمشنر تھانا بولا خان کی جانب سے جب یہ انٹریاں جعلی قرار دیدی گئی ہیں تو حکومت سندھ کی جانب سے ان انٹریوں کی منسوخی لازمی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 27؍ مئی 2019ء کو وزیراعلیٰ سندھ نے کیپٹن (ر) فرید الدین مصطفیٰ کو ہدایت کی کہ وہ مذکورہ زمین پر نجی پارٹی کے دعوے کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرائیں۔
اسی دن یہ رپورٹ مختیار کار کے فراہم کردہ اصل ریکارد کو دیکھ کر اس کی اسکروٹنی کرکے تیار کی گئی اور اسے وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری کو پیش کر دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود 2082؍ ایکڑ زمین کی جعلی انٹریاں سینئر ممبر بورڈ نے 28؍ ماہ گزر جانے کے بعد بھی منسوخ نہیں کیں۔
ٹی آئی پی کے حساب کے مطابق، لکی سیمنٹ فیکٹری کے قرب و جوار میں موجود اس زمین کی مارکیٹ ویلیو ایک کروڑ روپے فی ایکڑ ہے یعنی 20.3؍ ارب روپے، اور ضروری ہے کہ 2082؍ ایکڑ زمین کو قبضہ خوروں سے بچایا جائے۔
ٹی آئی پی نے چیف سیکریٹری سندھ سے کہا ہے کہ وہ اصل دستاویزات کی روشنی میں جعلی انٹریوں کے اس معاملے کا جائزہ لیں اور فوری کارروائی کرتے ہوئے 2082؍ ایکڑ زمین کی جعلی اور بوگس انٹریاں منسوخ کی جائیں اور غیر قانونی اقدام میں ملوث افراد اور جنہیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے؛ دونوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔