• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 27 ستمبر کو سیاحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ اقوامِ عالم میں سیاحت کو اس کاجائز مقام دلایا جاسکے اور دنیا کو خوب صورت سے خوب صورت تر بنایا جائے اور یہ اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب دنیا بھر کی حکومتیں اور اقوام مل جُل کر اس جانب توجہ دیں۔ 27 ستمبر کے دن کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو اللہ نے پاکستان کو نہایت دلکش و دلفریب خطے عطا کئے ہیں جن کا ثانی ساری دنیا میں نہیں۔ ہمارے سمندر ، پہاڑ، گلیشئر، دریا ، چشمے، آبشاریں ، وادیاں اور صحرا اپنی مثال آپ ہیں۔ جو ہمارے لئے خداوند کریم کا انمول تحفہ ہیں۔ 

ہمارے شمالی علاقہ جات اور کشمیر تو گویا زمین پر جنت کا نمونہ ہے۔ بلوچستان شاید دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں بیک وقت کئی موسم کچھ ہی فاصلے پر یہاں آنے والوں کو اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ مثلاً سبی جیسے گرم ترین علاقے سے کچھ ہی گھنٹے کی مسافت پر زیارت جیسا پر فضا مقام واقع ہے جو بلاشبہ اللہ کی شان فیاضی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہاں صنوبر کے قدیم قدرتی جنگلات موجود ہیں جو دنیا بھر میں قدیم درختوں میں دوسرے نمبر پر شمار کئے جاتے ہیں ان میں بعض درخت 5500 سال تک پرانے ہیں۔ صوبہ سندھ میں بحیرہ عرب جیسا خوبصورت نیلگوں پانی ساحل سے ٹکراکر اپنے رنگ بکھیرتا ہے تو لاڑکانہ کے قریب موہنجودڑو کی قدیم ترین تہذیب کے آثار یادرفتگان میں جیسے ہمیں دھکیل دیتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کی سر سبزو شادابی پانچ دریاؤں کی مرہونِ منت ہے جو ہمارے جسم و روح کو تروتازگی مہیا کرتی ہے،یہیں دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان کھیوڑہ ہے۔ گلگت بلتستان جس کی خوبصورتی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کے پتھر سے بھی پھول کھلتے ہیں ۔ یہاں کے نظارے دھنک رنگ بکھیرتے ہیں۔

یہاں کی آبشاریں گنگناتی ہیں اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمےمدھر سر بکھیرتے ہیں اور سیاحوں کے غول ان قدرتی جلوؤں میں گم ہوجاتے ہیں۔گلگت بلتستان میں ہنزہ کا پانی دنیا بھر میں صحت بخش اجزا ءکے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہنزہ کے لوگ طویل العمری میں مشہور ہیں۔ گلگت بلتستان میں ایک ایسا مقام بھی ہے جہاں دنیا کے تین سب سے بڑے پہاڑی سلسلے کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہِ ہندوکش آپس میں ملتے ہیں۔ 

دنیا بھر میں یہ واحد مقام ہے جہاں پہاڑوں کے یہ سلسلے ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم جسے آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے مختلف علاقوں سے سفر کرتا رنگین نظاروں اور تہذیب و تمدن سے آشنا ہوتا با لآخر پاک چائنا بارڈر خنجراب پر جاکر پاکستانی حدود سے نکل کر چین میں داخل ہوجاتا ہے۔شاہراہِ قراقرم دنیا کی وہ واحد سڑک ہے جو اتنی بلندی سے گزر رہی ہے۔ یہاں کی بہت ساری نعمتیں جو ہمیں اللہ نے عطا کر رکھی ہیں اکثر لوگوں سے پوشیدہ ہیں ۔ 

مثلاً دنیا کی بلند ترین 100 چوٹیوں میں سے 30 ہمارے پیارے وطن میں ہیں جو بلاشبہ کسی اعزاز سے کم نہیں ۔گلیشئر کا تو ہمارے پاس وہ سلسلہ ہے جو ساری دنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ ہمارے یہ گلیشئر قطب شمالی کے بعد دنیا کے سب سے بڑے اور طویل گلیشئر شمار کئے جاتے ہیں جنہیں واٹر ٹاور کا نام دیا گیا ہے۔ پا ک چائنا بارڈر جو سطح سمندر سے تقریباً 15397 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور دنیا کی سب سے اونچی سرحد جہاں دو ملکوں کی فوجیں باضابطہ طور پر موجود ہیں ۔ گلگت بلتستان میں اسکردو اور استور کے درمیان دنیا کا سب سے بڑا سطح مرتفع دیوسائی موجود ہے ،جو اپنی دلکشی و رعنائی اور آب و ہوا کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے اور کیا کمال قالین بچھی ہوتی ہے رنگ برنگی پھولوں کی شکل میں، ہر طرف قوس و قزاح کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔

یہاں کے مکین جنگلی جانور اور پرندے اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں ۔ مشہور ہے کہ یہاں کے سبزہ زار اور جڑی بوٹیاں بھی باتیں کرتی ہیں۔ ریت کی سرزمین صحرائے تھر کی بھی کیا ہی بات ہے کہ جب بارش ہوجائے تو اس کے بعد یہ ریگستان کم اور ہرے بھرے میدانوں کا قطعہ زیادہ لگتا ہے۔ یہاں کے مور جب ناچتے ہیں تو سارا ماحول اس کے ساتھ جھومتا ہے ،یہ اپنی نوعیت کا واحد ریگستان ہے جو اس طرح کا مزاج رکھتا ہے۔ الغرض پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فیاضی سے کیا کمال نوازا ہے کہ بس دل سے واہ واہ نکلتی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان دلکش اور قیمتی عطا کردہ نعمتوں سے کیا خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ لیکن ملک میں بہت کچھ ہونے کے باوجود سیاحت کے شعبہ میں کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنے، خوبصورت نظاروں ، تاریخی پس منظر اور ثقافتی ورثے کو ملک و بیرونِ ملک بھرپور انداز میں کوریج دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وطن کو جو دلکشی عطا کی ہے وہ جنت کا گماں پیش کرتی ہے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے آج عالمی دن کی مناسبت سے تہیہ کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو دنیا کے صفِ اول کے سیاحتی خطے میں شامل کرواکر دم لیں گے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ان قدرتی رنگوں سے پُر علاقوں کی معلومات اور خوبصورتی کو دوسرے ملکوں تک پہچانےکی ضرورت ہے۔امن وامان کے مسائل پر توجہ دی جائے۔

ان جنت نظیر وادیوں تک پہنچنے کے لیے بہترین اور محفوظ راستوں کا انتظام کیا جائے۔ ہوٹلنگ کے سسٹم اور معیار کو بہتر بنایا جائے۔ درجنو ں جگہیں ایسی ہیں جہاں چیئر لفٹ لگاکر اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگایا جاسکتا ہے۔ جگہ جگہ رہنما بورڈ مختلف زبانوں میں لگائے جائیں تاکہ سیاح بہتر انداز میں ان راستوں سے روشناس ہو سکیں۔ 

بیرنِ ملک سیمینار منعقد کئے جائیں تاکہ غیر ملکی سیاحوں کو ہمارے نایاب اور دنیا میں منفرد و یکتا مقامات کے بارے میں معلومات بہم پہنچ سکیں۔ اللہ نے ہمیں دنیا کے سب سے خوبصورت خطے عطا کئے لیکن ہمیں اپنی اس دلکش وادیوں اور نظاروں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے اور مربوط و منظم حکمت عملی اپنا کر، نا صرف اس کو فروغ دینا چاہیئے بلکہ اس سے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو قوت بھی بخشنی چاہیئے۔

تازہ ترین