ہر قوم کی ترقی میں تعلیم کو بنیادی حیثیت و اہمیت حاصل رہی ہے کیونکہ تدریس ہی وہ واحد شعبہ ہے، جس سے نسل نو کی تربیت ہوتی ہے لیکن پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ قومی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے رہا ہے حالاں کہ تعلیم کے شعبہ کو پہلے نمبر پر ہونا چاہیے تھا۔ نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بے پناہ معاشی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ تعلیمی پسماندگی بھی ایک بڑا چیلنج تھی۔
قیام ِپاکستان سے اب تک کئی تعلیمی پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ 1947ء کے آخرمیں کراچی میں پہلی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی،جس میں نئے مملکت کے لئے تعلیمی خدوخال کے لئے سفارشات ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کی گئیں تھیں۔ اس وقت کے وزیر داخلہ فضل الرحمان نےاس کانفرنس میں اردو کو ’رابطے کی زبان ‘ قرا دیا تھا۔1959ء میں قومی تعلیمی کمیشن تشکیل دیا گیا ،جس میں یہ طے کیا گیا کہ 1969ء تک ملک میں پرائمری تعلیم اور 1974ء تک مڈل تعلیم ہر فرد کے لئے یقینی بنائی جائے گی۔ 1969میں جو تعلیمی پالیسی پیش کی گئی، اس میں اردو کو مغربی پاکستان میں اور بنگالی کو مشرقی پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ 1970کی تعلیمی پالیسی میں کتب خانے کے قیام اور ترقی کی تجاویز پیش کی گئی تھی۔
1972 میں جو تعلیمی پالیسی سامنے آئی اس میں یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا تصور دیا گیا۔ 1979 کی پالیسی میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا گیا لیکن تعلیم کے میدان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ محمد نواز شریف کی پہلی حکومت نے 1992 ء میں تعلیمی پالیسی بنائی جس کی رو سے ذریعہ تعلیم کا فیصلہ صوبوں کو دیا گیا ، اس پالیسی نے آگے سفارش کی کہ اعلی سائنسی و تیکنیکی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی۔
1998ء میں آٹھویں تعلیمی پالیسی مرتب کی، اس پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں کی گئی ماسوائے عربی زبان کے فروغ کے۔ 2009 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تعلیمی پالیسی پیش کی،اس پالیسی کی رو سے انگریزی زبان ابتدائی جماعت سے ہی مضمون کے طور پر شامل کی گئی اور اس کے لئے منصوبہ بندی کا اعلان کیا گیا۔ جماعت اوّل سے اردو، انگریزی، ایک صوبائی زبان اور حساب کو مضامین کی صورت میں رکھنے کی سفارش کی گئی۔ اس کے بعد وفاقی سطح پر کوئی تعلیمی پالیسی نہیں آئی ۔
چوں کہ پاکستان کا تعلیمی نظام صرف مختلف کمیشن، پالیسیوں اور کمیٹیوں کے مرہون منت رہا، اس لئے باقاعدہ قومی تعلیمی پالیسی اور یکساں نصاب کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہ ہوسکا یوں نوجوانوں کے مستقبل اور ایک قوم کے تصور کوصحیح سمت پر گامزن نہیں کیا جاسکا ۔ 2017ء میں قومی تعلیمی پالیسی ازسرنو تشکیل کی گئی لیکن وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔
2019ء میں حکومت نے نئی قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا، اس پالیسی میں نئے یکساں قومی نصاب کی بازگشت سنائی دی اوربتایا گیا کہ نئے نصاب کی تیاری میں تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنی والی اہم شخصیات، اہل علم، دانشور، تعلیمی ماہرین، مکحققین کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم ان سب کی رائے کی روشنی پالیسی مرتب کی جائےگی۔ وزیر تعلیم کی زیر صدارت قومی یکساں تعلیمی نصاب کے اجلاس منعقد ہوتے رہے۔
حکومت نےطلباء کے نصابی نقطہ نظر اور قومی سوچ میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے یکساں تعلیمی نصاب مرتب کیا، اسے تین مراحل میں نافذ کیے جانے کے احکامات جاری کیے،یعنی2021-2022ء میں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک،2022-2023ء میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک،2023-202 میں نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک یکساں نصاب تعلیم لاگو ہو گا۔
معاشی طبقاتی کشمکش کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے 16؍اگست 2021ء کو یکساں قومی تعلیمی نصاب کو اصولی طور پر رائج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ، کہ مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب نئی نسل تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ ماضی میں کسی نے تعلیم کی بہتری پر توجہ نہیں دی۔ طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو تقسیم کردیا۔ یکساں نصاب مستقبل میں ملک کےلئے فائدہ مند ہوگا۔ ہمیں آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے بارے سوچنا ہے۔ ہماری تنزلی کی بڑی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ انگلش میڈیم سسٹم ذہنی غلامی لایا، اس سسٹم نے ہمیں مغربی کلچر کا غلام بنا دیا۔ اب اُمید ہے کہ ایک قوم، ایک نصاب سے طبقاتی تقسیم ختم ہوجائے گی۔
نصاب کے اہم بنیادی نکات
* نصاب میں اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرنے سیرت النبیؐ کی تعلیم دہم جماعت تک دی جائے گی۔
* ہرجماعت کے نصاب میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے بارے میں مضامین اور شاعری کو شامل کیا جائے گا۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے حوالے سے مختلف عنوانات کو جگہ دی جائے گی، تاکہ ہماری نئی نسل اور نوجوانوں کو ذہنی طور پر قومی سوچ کی طرف راغب کیا جاسکے۔
* معاشرتی اقدار کو پروان چڑھایا جائے گا اور قومی تشخص کو ابھاراجائے گا۔ انسانیت اور اخلاقیات جوکہ معاشرے کے بنیادی اصول ہیں ان کو نصاب میں مختلف اسباق کی صورت میں شامل کیا جائے گا، جس سے پاکستانی تہذیب، ثقافت کے ذریعہ نوجوان نسل کی کردار سازی کی جائے گی۔
* نصاب میں دور جدید میں ہونے والی نت نئی ٹیکنالوجی سے آگہی دی جائے گی ۔
یکساں نصاب خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں رائج ہوگیا ہے، تدریس کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے، جبکہ صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم نے اس پر اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کے بقول سندھ کا قومی تعلیمی نصاب بہت بہتر ہے اور اس میں وہ تمام موضوعات ہیں جو ہمارے ملک کے اسلامی، تاریخی اور جدید علوم سے وابستہ ہیں۔
دوسری طرف ان کا موقف ہے کہ آئین کی آٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ اور اس سے منسلک تمام دیگر مسائل صوبائی حکومت کے دائرے اختیار میں آتے ہیں، لہٰذا نصاب کی تیاری میں ہماری رائے، مشوروں کو یکسر انداز کردیا ہے۔
ماہرین تعلیم کے مطابق ، معاشرے میں اسلامی اقدارکو فروغ ہرصورت میں ملنا چاہیے، اس کے لئے ابتدائی جماعتوں سے لے کر بڑی جماعتوں تک احادیث مبارکہ اور قرآنی آیات کی روشنی میں طالب علموں کو آگہی دینے کے لیے ہر سطح کے تعلیمی اداروں کو باقاعدہ پابند کیا جانا بہت اچھی بات ہے۔ نسل نو کو اکیسویں صدی کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں بھی بتایا جائے گایہ بات بھی نسلِ نو کے لیے سود مند ہے۔
مدارس کےطلباء کو ملک کے دیگر طلباء کی طرح تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی لیکن یہاں کچھ شکوک و شبہات ذہن میں آتے ہیں کہ یہ نصاب دیہی علاقوں میں کس طرح نافذ کیا جائے گا،ٍ جہاں صورت حال بہت نازک ہے وہاں پر تعلیم پر خاص توجہ پہلےہی نہیں دی جاتی۔ اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم کیسے دی جائے گی۔
فرض کریں کہ کمپیوٹرز کے بارے میں نصاب میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا پرائمری کلاس سے سیکنڈری کلاس تک پاکستان کے ہر شہری اور دیہی اسکول میں کمپیوٹرز فراہم کئے جائیں گے؟ کیا پاکستان میں ہر گائوں، دیہات،مضفاتی علاقوں، شہر، بستیوں میں بجلی موجود ہوگی اور کتنے اسکول اس سے روشن ہوں گے۔ کیا اس لحاظ سے تعلیمی بجٹ اور دیگر مد میں اخراجات کا تخمینہ لگالیا گیا ہے؟
نصاب میں اسلامی مواد کے ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں کی ثقافت، تہذیب وتمدن کو کس طرح شامل کیا جائے گا۔کیا چاروں سوبوں کے طالب عم، صوفی شاعر اور بزرگ ہستیوں کے بارے میں وہاں کی تہذیب وتمدن کے بارے میں ایک ہی نصاب سے فیض یاب ہوسکیں گے؟ سائنس‘ ریاضی‘ معاشرتی علوم کے مضامین کے مندرجات کم کردیے گئے ہیں، اس سے نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم گر جائے گا۔ لوگ جس بہتر تعلیم کے لیے اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں وہ مقصد ختم ہوجائے گا۔ یکساں نصاب میں تمام مضامین کی تعلیم قومی زبان اُردو میں ہوگی۔
مشکل یہ ہے کہ نجی اسکولوں کے اساتذہ کو خود بھی اُردو زبان نہیں آتی کیونکہ انہوں نے ہر مضمون انگلش میں پڑھا ہے۔بعض لوگ معترض ہیں کہ جو بچے سائنس اور دیگر علوم اُردو زبان میں پڑھیں گے، انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔ ملک میں ہر کام انگریزی میں کیا جاتا ہے۔ جب تک عملی زندگی میں اُردو زبان لازمی قرار نہیں دی جاتی ، جب تک مسائل پیدا ہوتے رہیں گے، اس مقصد کے لیے دفتری زبان کو بھی اُردو میں اختیارکیا جانا ضروری ہے، اگر ایسا ہوجائے تو ہر طبقے کے لوگ اُردو ذریعۂ تعلیم کو قبول کرلیں گے۔ حکومت وقت ،وفاقی وزیر تعلیم کو اور صوبائی حکومت کو ایک فورم پربیٹھ کر نصاب کا تمام پہلوؤں سے ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ قومی یکساں نصاب کو باہمی رضامندی کے ساتھ رائج کرنا بہتر ہوگا۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔