• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (تبصرہ / طارق بٹ) ہدف حاصل، ترین گروپ کمزور پڑگیا،اس کے ارکان کھلے عام چل دئیے یا خاموشی سے دھڑے سے دوری اختیار کرگئے۔ 

تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تمام وفاقی اور پنجاب کے اراکین اسمبلی ، جو کبھی جہانگیر ترین گروپ سے وابستہ تھے ، یا تو کھلے عام چل دئیے یا خاموشی سے خود کو اس سے دور کر لیا یا اپنی ’باغی‘ سرگرمیاں ترک کر دیں۔ 

چونکہ اپنے عزم اور یقین دہانی کے بعد ، جو انہوں نے پوری کیں، کہ ان کے ارکان اپنے سالانہ بجٹ کی منظوری میں وفاقی اور پنجاب حکومتوں کی حمایت کریں گے۔

ان کے ’سپریم لیڈر‘ کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے قائم کردہ کیس میں ریلیف ملا ہے، انہوں نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا کہ ان کی ٹیم زندہ ہے یا متحرک ہے۔ 

مفاہمت کے بعد ایف آئی اے ، جو کہ ترین کے خلاف مقدمات کی بھرپور پیروی کر رہی تھی ، نے متعلقہ عدالت کو بتایا کہ اسے اب انہیں گرفتار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ یقین دہانی بظاہر معاہدے کا ایک حصہ تھی۔ 

کھلی بے وفائیوں، خاموش انحراف یا ان کے ارکان کی بے غرضی کے باعث اس گروہ نے وہ نامبارک اثر کھو دیا ہے جو اس کے پاس تھا اور اس نے وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو دھمکیاں دی تھیں ، جو دونوں قانون سازوں میں ہلکی اکثریت کی وجہ سے ان کی حمایت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔ 

اگرچہ باضابطہ وصیت نامہ ابھی پڑھا جانا باقی ہے ، یہ گروپ بڑے پیمانے پر کمزور پڑ گیا ہے۔ تاہم اس بات کا امکان ہے کہ یہ اگلے عام انتخابات کے موقع پر سامنے آئے جب نئی انتخابی صف بندی ہوگی اور منحرفین ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت میں چھلانگ لگائیں گے۔ 

ایک سوال جو اکثر اوقات اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اتنی زیادہ عوامی سطح پر تلخی کے بعد وزیراعظم عمران خان اور ترین مستقبل کے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر اسی پرانے ہم آہنگی اور اشتراک کے ساتھ مل کر کام کریں گے جو 2018کے عام انتخابات میں دیکھا گیا تھا۔ 

نذیر اختر چوہان ، رکن پنجاب اسمبلی (MPA) ، جو کہ ترین گروپ کے سب سے زیادہ صاف گو شراکت دار تھے ، انہوں نے سب سے پہلے اس دھڑے کا ساتھ چھوڑا اور اس پر ضرب لگائی جب اس نے نہ صرف اسے چھوڑا اور وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کی بیعت کی بلکہ ترین پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔ وزیر اعظم کے مشیر کے خلاف اندھادھند الزامات لگانے پر چند ہفتوں کی حراست کے بعد وہ بدل گئے۔

اب ملتان سے ایک اور ایم پی اے اور ترین گروپ کے رکن سلمان نعیم ، جنہوں نے 2018کے انتخابات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی ، نے اپنا ذہن بدل لیا ہے جیساکہ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی ہے۔ وہ کھلم کھلا ترین کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

تازہ ترین