افغانستان کی سرزمین 4 دہائیوں تک جنگ کی آگ میں جُھلستی رہی ہے، اس جنگ کی ہولناکی کا اندازہ لگانا ہو تو میدانِ جنگ کے بجائے اسپتالوں اور بحالی سینٹرز کو دیکھا جائے، جہاں جسمانی اعضا سے محروم متاثرین تڑپ رہے ہیں۔
کابل کے ایک بحالی سینٹر میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے آج ایک ہی ساتھ زیر علاج ہیں۔
چالیس سال، خانہ جنگی اور دو عالمی طاقتوں کے تختہ مشق بننے والے افغانستان کی جنگ کا تخمینہ کھربوں ڈالر بنتا ہے۔
لیکن اس ’فارایور وار‘ کی اصل قیمت کابل کی پہاڑی کے دامن میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تین سال کے بچے سے لے کر 70 سال کے بزرگ تک، یہ وہ افغان عوام ہیں جو طاقت کے بارود سے زندہ تو باہر نکلے لیکن زندگی تبدیل ہوگئی۔
میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والے آج یہاں برابر برابر لیٹے ہیں، کسی کا پیر بارودی سرنگ پر پڑا تو کوئی سرحد پار کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنا۔
جنگ زدہ علاقوں میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے والی عالمی تنظیم ریڈ کراس کے اس بحالی سینٹر میں، جنگی حالات میں زخمی ہونے والوں کو سالانہ 28 ہزار مصنوعی پیر لگائے جاتے ہیں۔
جیو نیوز کو اس بحالی سینٹر کا دورہ کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی، البرٹو کائیرو نے 30 سالوں میں 5 حکومتیں بدلتے دیکھیں لیکن حالات نہ بدلے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف مصنوعی ٹانگ یا ہاتھ لگانے کا نہیں، بلکہ زندگی کی طرف ان کی واپسی کا بھی ہے۔
اس بحالی سینٹر میں کام کرنے والا 90 فیصد اسٹاف اپنی ٹانگوں سے محروم ہے، شاید اسی لیے یہ مصنوعی اعضا بناتے ہوئے، متاثرین کا دکھ زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
طالبان کی موجودہ حکومت نے ریڈ کراس کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے، یہ جنگ کی ہولناکی کی وہ زندہ مثالیں ہیں، جنہیں دیکھ کر امن کی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔