پی ٹی آئی کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے کےبا وجود ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پار لیمانی ورکنگ ریلشن شپ قائم نہیں ہوسکا اور جس طرح پارلیمنٹ کے باہر محاذ آ رائی اور الزام تراشی کا ماحول ہے اسی طرح پارلیمنٹ کے اندر بھی دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف عمل ہیں جس سے بہرحال سیا سی قیادت کی بالغ نظری اور بلوغت کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں ۔
عوام یہ سوال کرنے میں تو حق بجانب ہیں کہ ملک و قوم کے مفاد کے دعویدار عملی طور پر اپنے ذ اتی یا پارٹی مفادات کو تر جیح دیتے ہیں ورنہ کم ازکم عوامی مفاد میں قانون سازی کے عمل کو اتفاق رائے کے ماحول میں سر انجام دیا جا ئے۔ حالت یہ ہے کہ قو می اسمبلی کے اجلاس میں کورم پورا نہیں ہوتا جو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قومی اسمبلی کے رواں اجلاس میں مسلسل پانچ دن کورم ٹوٹا ۔ حکومتی وزرا ء قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوتے جس سے اسمبلی کے بارے میں غیر سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خود وزیر اعظم اجلاس میں نہیں آتے تو وہ وزراء کی کیا باز پرس کریں گے ۔
اس وقت سیا سی منظر نامہ پر جو ایشوز زیر بحث ہیں ان میں چیئر مین نیب کی تقرری یا موجودہ چیئر مین نیب کی مدت میں توسیع اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذ ریعے اگلے عام انتخابا ت کا انعقاد سر فہرست ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت بضد ہے کہ اگلے عام انتخابات ای وی ایم کے ذ ریعے کرائے جا ئیں گے ۔ وزیر اعظم کا موقف یہ ہے کہ 1971 کے بعد ہر الیکشن کے نتائج پر اعتراضات ہوئے اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اسلئے الیکشن میں شفافیت لانے کیلئے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنا لو جی کو استعمال میں لا یا جا ئے ۔
اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ ای وی ایم اگلا الیکشن چرانے کا منصوبہ ہے۔ الیکشن میں دھاندلی صرف ووٹ ڈالنےکے عمل میں نہیں ہوتی بلکہ الیکشن سے قبل بھی پری پول انجئرنگ کی جاتی ہے اورووٹ ڈالنے کے بعدنتائج کی تیاری کے عمل میں بھی کی جا تی ہے۔ ای وی ایم پری پول دھا ندلی کو نہیں روک سکتی ۔ ووٹ ڈالنے کے بعد نتائج پر اثر انداز ہونا ای وی ایم کے ذ ریعے زیادہ آ سان ہوجا ئے گا کیونکہ سافٹ ویئر کمپنی کے پاس ہو گا۔
الیکشن کمیشن نے بھی اس نظام پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیاجس پر حکومت اس قدر مشتعل اور سیخ پاہوئی کہ ایک آئینی ادارے کو آگ لگانے اور چیف الیکشن کمشنر کو اپوزیشن کا تر جمان قرار دینے بلکہ پیسے پکڑنے جیسا بیہودہ اور سنگین الزام لگادیا گیا۔ الزام لگانے والے دو نوں وفاقی وزراء فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو جب الیکشن کمیشن نے نوٹس دیا کہ آپ ایک ہفتے میں اپنے الزامات کی سپورٹ میں ثبوت پیش کریں تو جواب دینے کی بجائے انہوں نے چھ ہفتوں کی مہلت مانگ لی ۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہرصورت میں اگلا الیکشن ای وی ایم پرکرانا ہے۔ اپو زیشن نے ای وی ایم کے ایشو پر حکومت کی جانب سے بات چیت کی پیش کش قبول نہیں کی بلکہ قانون سازی کی ٹھان لی ۔ حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر اس بل کو جوائنٹ سیشن سے پاس کرایا جا ئے گا۔ اس دبائو کے بعد اپوزیشن نے اسپیکر اسدقیصر کی جانب سے مصالحتی پیش کش قبول کرلی جس میں طے پایا کہ ایک پا ر لیمانی کمیٹی تشکیل دی جا ئے جس میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شامل ہوں اور وہ اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات تجویز کرے۔
اپوزیشن چاہتی ہے کہ صرف ای وی ایم کی بجائے مجموعی طور پر انتخا بی اصلاحات کی جا ئیں۔ پار لیمانی کمیٹی کا حصہ بننے پر بھی اپو زیشن اختلافات کا شکار ہو گئی ہے کیونکہ جے یو آئی ف کے سر براہ مو لانا فضل الرحمن اس کمیٹی کا حصہ بننے کو تیار نہیں بلکہ انہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے احتجاج کیا کہ آپ چونکہ پی ڈ ی ایم کا حصہ ہیں اسلئے آپ نے پی ڈی ایم کو اعتماد میں لئے بغیر پار لیمانی کمیٹی کا حصہ بننے پر کیوں آ مادگی ظاہر کی ۔ دراصل مو لا نا فضل الرحمنٰ کی جارحانہ بلکہ انتہا پسندانہ طرز سیا ست بھی مفاہمت کے ماحول کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہے ۔
یہی سوچ اور مزاج نواز شریف اور مریم نواز کی ہے البتہ شہباز شریف کی سوچ اس سے برعکس ہے۔ شہباز شریف نے 2018میں ہی الیکشن کے فوری بعد قومی اسمبلی سے پہلے خطاب میں ہی حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کردی تھی جسے حکومت نے قبول نہ کرکے اپنا اور ملک کا نقصان کیا ورنہ اس سے حکومت اور اپوزیشن میں ورکنگ ریلیشن شپ کا ما حل بن جا تا۔ بہر حال الیکشن کمیشن سے محاذ کھول کر حکومت نے خسارے کا سودا کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر وزراء کی بیان بازی سے دباؤ میں آنے والی شخصیت نہیں ہیں ۔ اس کا ندازہ خود حکو متی حلقوں کو بھی ہوگیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا نا ہے۔ سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن کی انکوائری رپورٹ جاری کرنی ہے ۔ اب تو وزراء کے بیانات پر توہین عدالت کا ختیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔
ان فیصلوں کے دور رس اثرات اور مضمرات کے پیش نظر حکومتی توپیں اب خا موش ہوگئی ہیں ۔چیئر مین نیب جسٹس (ر) جا وید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔انہوں نے 11اکتوبر 2017کو اپنے عہدہ کا چارج سنبھالا تھا۔ ان کی چار سالہ مدت دس اکتوبر کو ختم ہو جا ئے گی۔ مو جودہ قانون کے تحت چار سالہ مدت میں توسیع نہیں کی جاسکتی اور نئے چیئرمین کے تقرر کیلئے وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے پابند ہیں ۔
موجودہ چیئر مین کی تقرری سابق وزیر اعظم شاہد خا قا ن عبا سی نے اس وقت کے اپو زیشن لیڈر سید خور شید شاہ کی مشاورت سے اتفاق رائے سے کی تھی ۔ اس کا اعلان بھی دونوں نے پار لیمنٹ ہا ئوس میں مشترکہ پریس کا نفرنس میں کیا تھا۔ مو جودہ چیئر مین نیب کی عمر اب 75سال ہوگئی ہے ۔ وہ خود بظاہر یہ کہتے ہیں کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے لیکن نیب کی جانب سے مسلسل چار سالہ کا کردگی کی تشہیر یہ ظاہر کرتی ہے کہ توسیع کے کیس کو جواز اور تقویت دی جا ئے ۔
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اعتراف کیا ہے کہ موجودہ چیئرمین بھی مضبوط میدوار ہیں اور وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ میں ان کے نا م پر بھی مشاورت کی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ چیئر مین نیب کی تقرری پر اپو زیشن لیڈر سے مشاورت نہیں کریں گے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر نیب کے ملزم ہیں لہذا ان سے مشاورت مفادات کا ٹکرائو بنتا ہے۔