راحت اندوری
میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں
مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں
عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو
وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں
میں آئنوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں
وہ ذرے ذرے میں موجود ہے مگر میں بھی
کہیں کہیں ہوں کہاں ہوں کہیں نہیں ہوں میں
وہ اک کتاب جو منسوب تیرے نام سے ہے
اسی کتاب کے اندر کہیں کہیں ہوں میں
ستارو آؤ مری راہ میں بکھر جاؤ
یہ میرا حکم ہے حالانکہ کچھ نہیں ہوں میں
یہیں حسین بھی گزرے یہیں یزید بھی تھا
ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی زمیں ہوں میں
یہ بوڑھی قبریں تمہیں کچھ نہیں بتائیں گی
مجھے تلاش کرو دوستو یہیں ہوں میں