• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم محمّد علی جناح کے دستِ راست، شہیدِ ملّت، نواب زادہ خان لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو بھارت، کرنال کے ایک زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والدکا نام نواب بہادر رستم علی خان اور والدہ کا محمودہ بیگم تھا۔ دین کی بنیادی تعلیم گھر ہی میں حاصل کرنے کے بعد مشہور درس گاہ، محمڈن اینگلو اورینٹل (MAO)کالج علی گڑھ سے سیاسیات میں گریجویشن اور 1918ء میں بیچلرز آف لا کی سند حاصل کی۔ اسی برس اُن کی شادی جہانگیرہ بیگم سے ہوگئی۔ 

والد کے انتقال کے بعد، قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان چلے گئے۔1921ء میں آکسفورڈ کے مشہور ایگزیکٹر(EXECTER) کالج سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری اور 1922ء میں اِنر ٹیمپل (INNER TEMPLE) سے بارایٹ لا کے بعد1923ء میں ہندوستان واپس آئے۔ ہندوستان آنے کے بعد انہیں انڈین نیشنل کانگریس نے رکنیت کی پیش کش کی، جو انہوں نے رَدکردی اور مسلمانانِ ہند کی نمائندہ جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 

مئی 1924ء میں قائداعظم محمّد علی جناح کی زیرِقیادت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں دیگر رہنماؤں کے علاوہ خان زادہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ انہیں1926ء میں مظفّرنگر، یوپی کے حلقے سے یوپی کی مجلسِ قانون ساز میں مسلم نمائندہ چُنا گیا۔1932ء میں انہوں نے تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں ممتاز حیثیت کی حامل، بیگم رعنا سے دوسری شادی کی۔

برصغیر کی سیاسی تاریخ میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد ایک نمایاں تبدیلی یہ آئی کہ قائدِاعظم محمّد علی جناح نے ہندوستان میں سیاسی حالات کی ابتری دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا اور وہیں وکالت کی پریکٹس کرنے لگے۔ 1928ء سے 1937ء تک مسلمانانِ ہند کی سیاسی صورت حال بتدریج ابتری کا شکار رہی۔ مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور دیگر جماعتوں کے معرضِ وجود میں آنے کے سبب، مسلمانوں کا سیاسی منظر نامہ یک سر تبدیل ہوگیا، اس بے یقینی اور ابتر صورتِ حال میں 1933ء میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنالیاقت لندن پہنچے اور قائداعظم سے ملاقات میں اُن سے وطن واپسی کا تقاضا کیا۔

چناں چہ 1934ء میں قائداعظم واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ساتھ ہی لیاقت علی خان بھی مکمل طور پر فعال ہوگئے اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نَو میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ 12اپریل 1936ء کو بمبئی میں منعقدہ اجلاس میں انہیں قائداعظم کی تجویز پر بِلامقابلہ اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ 1943ء میں قائداعظم نے لیاقت علی خان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں اپنا دستِ راست قرار دیا۔

وہ 1945ء میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی برس شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور جب1946ء میں مسلم لیگ عبوری حکومت کا حصّہ بنی، تو انہوں نے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے وہ تاریخی بجٹ پیش کیا، جسے عوام کے لیے نہایت مفید ہونے کے سبب، کٹّر کانگریسی پریس نے بھی عوامی اور ’’غریب آدمی کا بجٹ‘‘ قرار دیا۔

پاکستان کےقیام کے اعلان کے بعد 11 اگست 1947ء کو قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد اور بانیٔ پاکستان، محمد علی جناح کو سرکاری طور پر ’’قائداعظم‘‘ قرار دینے کی تجویز بھی لیاقت علی خان نے پیش کی۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان کے نام سے اسلامی ریاست معرضِ وجود میں آئی، تو ملک کے پہلےباضابطہ وزیرِاعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔پھر قائداعظم محمّد علی جناح کی وفات کے بعد بھی مُلک و ملّت کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔

4اپریل 1948ء کو ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا دستور، قرآنِ کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔7 مارچ 1949 ء کو قراردادِ مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوّزہ آئین کے راہ نما اصول متعین کیے گئے۔ قائدِ ملّت کی دور اندیشی اور ملک و ملّت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ’’ریڈکلف ایوارڈ‘‘ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہ راہ کی بنیاد پر انتہائی اہم ضلعے گورداس پور کو بھارت کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کردیا جائے، تو انہوں نے لارڈ اِسمے کو خبردار کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ’’مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوارہونے والے) دوستانہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔‘‘

قیامِ پاکستان کے وقت چوں کہ پاکستان کا کوئی آئین نہیں تھا، لہٰذا برطانوی دَور کے سابقہ 1935ء کے آئین میں ترامیم کرکے اسے عبوری آئین کے طور پر نافذ کیا گیا۔ ملک اُس وقت اَن گنت مسائل میں گھرا ہوا تھا، لاکھوں مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے، اُن کی رہائش اور خوراک کا بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد تقریباً 3 فی صد، جب کہ مشرقی پاکستان میں 22 فی صد تھی، اس لیے بہت سے ایسے سیاست دان تھے، جو 25 فی صد غیر مسلم آبادی والا ملک کہتے ہوئے ایسے آئین کا مطالبہ کر رہے تھے، جو سیکولر ہو، جب کہ علمائے کرام اس نکتے پر زور دے رہے تھے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا، لہٰذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا۔ 

نواب زادہ لیاقت علی خان ان حالات سے آگاہ اور باخبر تھے، وہ بھی علماء کے خیالات سے متّفق تھے، اس لیے انہوں نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی، جسے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کا نام دیا گیا۔ بعدازاں، پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو اسے منظور کیا۔ یہ قرارداد 7 مارچ 1949ء کو وزیر اعظم پاکستان، لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی اور اسی کے تحت طے ہوا کہ مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچا اسلامی ہوگا۔

شہیدِ ملّت خان زادہ لیاقت علی خان نے اپنی سیاست کے آغاز کے بعد ہی سے خود کو حصولِ پاکستان کے لیے وقف کردیا، یہاں تک کہ قائداعظم کی قیادت میں لازوال جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نوزائیدہ مملکت کی ترقی و کام یابی کے لیے بھی دن رات ایک کیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقّتوں کا سامنا کرنا پڑا، تو شہیدِ ملّت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔

25اگست1949 ء کو لاہور میں ایک خطاب میں کہا، ’’قوّت کے بل بُوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔‘‘ بعدازاں، مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے، تو وہ ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا، جو ’’لیاقت،نہروپیکٹ‘‘ کہلایا۔

اس عظیم اور نڈر قائد کو 16 اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں ہزاروں افراد کے مجمعے میں اُس وقت شہید کردیا گیا، جب انہوں نے تقریر شروع کرتے ہوئے ابھی ’’برادرانِ ملّت!.....‘‘ ہی کے الفاظ ادا کیے تھے، جب کہ شہادت کے وقت اُن کے آخری الفاظ تھے ’’اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔‘‘

تازہ ترین