وہ بھی کتنا اچھا وقت تھا جب لوگ بہترین اخلاق واطوار سے پہچانے جاتے تھا، ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کا دستِ بازو بن جاتے تھے ۔نوجوان تو ایک طرح سے خدمتِ خلق کا ادارہ سمجھے جاتے تھے، کسی کو چوٹ لگ جائے ، محلے میں کسی کو بازار سے کوئی سامان منگوانا ہویا کسی کو اسپتال لے جانا ہو ، کسی کی تیمارداری کرنی ہو نوجوان سب سے آگے ہوتے تھے، کسی کے کام آنا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔ ماضی میں ایک ناخواندہ دیہاتی بھی اخلاقی خوبیوں کی دولت سے مالا مال تھا۔ کوئی مسافر گاؤں میں آجاتا تو سب ہی اس کی آؤ بھگت کرتے۔
کم پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا تھا کہ مہذب اور شائستہ رویے کا مظاہرہ کیسےکرنا ہے لیکن رفتہ رفتہ جو تہذیبی روایات ختم ہوتی گئیںاب دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ نوجوان نسل تو اخلاقیات سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔ وہ تو بہت سے اخلاقی آداب کو تکلفات سمجھنے لگی ہے ۔ مثلاً شکریہ ادا کرنا، کسی غلطی پر معذرت کہنا ، سلام کرنا وغیرہ ۔ اُن کا طرز زندگی موبائل اور دیگر ٹیکنالوجی بن چکا ہے۔ یوں وہ صرف اپنی ذات تک محدود ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔
معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی وغیرہ نسلِِ نوسب سے فارغ ہے۔ اس خرابی کی ذمہ داری بزرگ نئی نسل پرعائد کرتے ہیں،اُن کے بقول نئی نسل اخلاقیات اور تہذیب سے عاری ہے۔ بڑوں کی سنتی ہے نہ اُن کی کوئی بات مانتی ہے لیکن اُن کو مکمل ذمہ دار قرار دینا بھی درست نہیں، کیوں کہ اگر وہ بچپن سے ہی اولاد کو اخلاقیات کی تربیت دیں اور انہیں برے لوگوں کی صحبت سےدور رکھیں تو ان کے بگڑنے کے امکانات شاذو نادر ہی ہوں گے۔
اُن پر لازم ہے کہ وہ بچوں کواچھی تعلیم دلوانے کے ساتھ اچھا انسان بنانے پر بھی توجہ دیں۔ اس کے علاوہ اخلاقی پستی اور زوال کی ایک وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کے عنصر کی عدم موجودگی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان اخلاقی تربیت سے بے بہرہ ہے، محض نوکری کا حصول ان کا مقصد حیات نظر آتا ہے، جس کے لیے وہ تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتےہیں۔اخلاق و کردار کی اصلاح میں ساز گار ماحول اور اچھے دوستوں کی صحبت کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے
ابنِ خلدون کی کتاب’’ مقدمہ‘‘ میں درج ہے کہ،’’ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے۔‘‘
اس وقت مجموعی اور انفرادی دونوں سطح پر اس بات کاجائزہ لینا ہوگا کہ ہم کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں ،نوجوان نسل کی تربیت کس انداز میں ہورہی ہے اور نوجوان اسلامی طرز حیات سے دور کیوںنظر آتے ہیں ؟ اس کے سد باب کے لیےاصل تربیت یہ ہے جو اپنے عمل سے چھوٹوں کو سکھائی جائےااسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے طریقے بتائے جائیں اور دوسروں سے ویسا ہی برتاؤ کرنے کی تاکید کی جائے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں نہ صرف اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے سب کو اپنا حصّہ ڈالناہوگا، اپنی ذمے داریاں پوری کرنی ہوں گی،اخلاقیات اخلاقیات سے آگاہ کرنا ہو گاہ وہ اپنے اپنے دائرہ استطاعت میں نوجوان نسل کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرے۔
والدین ہوں یا رشتہ دار، اساتذہ ہوں یا دوست احباب، مدرسین ہوں یا مبلغین ، اہل فکر ہوں یا اہل قلم ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا حق ادا کرے۔اگر سنجیدگی سے اس معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم دوبارہ اس اخلاقی سطح پہ پہنچ جائیں کہ جس پر ہمارے اسلاف عمل پیرا تھے۔