……سید عرفان علی یوسف……
میں نے جب بی اے کرنے کے لیے اردو کالج میں داخلہ لیا تو طبیعت پر رومان کا غلبہ تھا۔ پہلے شاعری کرنے کی کوشش کی لیکن میرے استاد محترم نے مجھ سے کہا کہ تم مزاجاً اور طبعاً شاعر نہیں ہو اس لیے شاعر بن کر زندگی برباد نہ کرو۔ لیکن تم بہت اچھے افسانہ نگار بنوگے۔ اس لیے نثر پر توجہ دو۔ میں نے ان کے مشورے کو چنداں اہمیت نہ دی اور تک بندی کرتا رہا۔
لیکن افسانے ضرور لکھنا شروع کردیے جو بہت سے رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوئے لیکن طبعیت پر رومانس چھایا رہا۔ جس شاعر نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اختر شیرانی تھے۔ اس وقت تک ان کے چھ دیوان چھپ چکے تھے۔ چند دن میں اختر شیرانی کی غزلیں اور رومانی نظمیں پڑھ پڑھ کر نیم دیوانہ ہوگیا لیکن یہ دیوانگی شاعری کی شکل میں نہیں افسانوں میں ظاہر ہوتی رہی۔ یہاں اختر شیرانی کے شعروں کا انتخاب پیش خدمت ہے۔
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا۔
جہاں رنگیں بہشتیں کھیلتی ہیں سبزہ زاروں میں
جہاں حوروں کی زلفیں جھومتی ہیں شاخساروں میں
جہاں پریوں کے نغمے گونجتے ہیں کوہساروں میں
جوانی کی بہاریں تیرتی ہیں آبشاروں میں
مری سلمیٰ مجھے لے چل تو اُن رنگیں بہاروں میں.
اک ایسی بہشت آئیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
جب تلک دل میں محبت نہ ہوئی تھی پیدا
میرے افکار کے پھولوں میں بہار آئی نہ تھی
میرے اشعار میں رنگینی و رعنائی نہ تھی
میرے تخیل میں ندرت نہ ہوئی تھی پیدا