وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ دوست پوچھتے ہیں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وزیرخزانہ کیوں بنے؟
پنجاب یونیورسٹی لاہور میں تقریب سے خطاب میں شوکت ترین نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ پاکستان ساؤتھ کوریا، ترکی، سعودی عرب اور تھائی لینڈ سے بڑی معیشت تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان 2008 میں ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت تھا، اب یہ 25 معیشتوں میں بھی شمار نہیں ہوتا۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ افغان جنگ ہماری نہیں تھی، ہم اس میں گھس گئے، وہ جنگ تو ختم ہو گئی لیکن اس کے بعد دہشت گردی چلی آئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 1972 میں انڈسٹریل ٹیک آف پر تھے، لیکن بڑی بڑی فیکٹریز کو نیشنلائز کردیا گیا، اس ساری صورت حال میں گروتھ کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔
شوکت ترین نے یہ بھی کہا کہ ملک میں 1973 کے بعد سے کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں ہوئی، ہمارے نظام میں ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم روز آئی ایم ایف پروگرام میں آرہے ہیں، جب ہم گروتھ کرتے ہیں تو کرنٹ اکاؤنٹ کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ دوست پوچھتے ہیں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کیوں وزیر خزانہ بنے؟
انہوں نے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اکنامک ایڈوائزری کونسل بنائی، تھنک ٹینک سے پوچھا گیا تو پتا چلا ہماری انویسٹمنٹ کپیسٹی نہیں ہے۔
شوکت ترین نے مزید کہا کہ ایکسپورٹ کی طرف سے کوئی توجہ نہیں ہے، اندرونی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے توآئی ایم ایف یا ایشین بینک کی ضرورت نہیں ہوگی۔