• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عزیزی عمر میں مجھ سے چھوٹے، تحریر میں مجھ سے بڑے انور مقصود حمیدی ! آج میں بھی غصے میں تمہارے ساتھ دوبدو مکالمہ کرتی ہوں۔ دنیا میں چاہے جتنے پنڈورا بکس کھلیں، چاہیں جتنی فردوسیں بار بار گھر بھیجی جائیں۔ چاہے جتنا وزیر داخلہ سنبھل سنبھل کر بولنے کی کوشش کریں مگر اپنی آئی پہ ضرور آتے اور طالبان کے گہوارے کو جھولا جھلانے پر آجاتے ہیں۔ تم نے ایک دفعہ، کئی سال ہوئے ایک اشتہار میں شاید پیسوں کی ضرورت تھی کہ یہ تمہاری شان بے خودی کا حصہ ہے۔ تم نے بسکٹ چائے میں ڈبو کر جتایا تھاکہ اس طرح بسکٹ اور لذیذ ہو جاتا ہے۔ اشرافیہ کا یہ رویہ نہیں ہوتا۔ وہ تو شوربے میں بھی سلیقے سے نوالہ ڈالتے ہیں۔ ڈبوتے نہیں، انور میاں ! یہ تم نے کیا روایت ڈال دی کہ ہر اک ہماشا،وقت بے وقت چائے میں بسکٹ ڈال کر کھاتا ہے اور غصہ مجھے تم پر آتا ہے۔یہ چائے میں ڈبو کر پنڈورا لیکس تم نے شروع کیں۔ اشرافیہ تو ماہرہ خان یا فواد خان کی طرح بسکٹ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں کیا بلکہ ہونٹوں میں مسکراتے ہوئے لیتے ہیں۔ ہر چند یوں خاک مزا آتا ہو گا۔ اب تم کہو گے کہ میں پرچ میں چائے الٹا کر سر سر کر کے پینے کی روایت کیوں زندہ نہیں کرنا چاہتی۔ ویسے وہ ختم نہیں ہوئی ہے۔ نمونہ دیکھنا ہو تو اپنے وڈے چودھریوں کے ڈیروں میں زمین پہ بیٹھے سفارشی ہاتھ میں پکڑے چائے پرچوں میں ڈال کر یونہی پیتے ہیں ویسے تو ہمیں اگر آزادی ملے تو دیگوں، پتیلیوں اور سینیوں میں کھلےدل کے ساتھ کھانا مزے سے کھاتے ہیں۔

عزیزی انور! اب ہماری بجیا نہیں تو تم سے ہی لڑ لوں کہ ہماری روایتی شادی کی رسمیں انہوں نے ایسے تازہ کیں کہ سارے انڈیا کے گھروں میں ختم قرآن سے نہیں تو بھجن اور رقص کےساتھ ہفتہ بھر کی تقریبات شروع ہوتی ہیں۔ اس میں وہ ڈھولکیاں شامل نہیں جو سہیلیوں اورخالائوں کے گھروں میں ہوتی ہیں۔ میں تمہیں یاد اس لئے کرا رہی ہوں کہ اس وقت پاکستان میں24ہزار گریجویٹ خواتین نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔پولیس میں بھرتی کیلئے ایم اے پاس ہزاروں کی تعداد میں درخواست گزار ہیں۔ دکانوں سے سونا چرانے والوں میں خواتین بھی شامل ہو گئی ہیں کہ وزیر اعظم نے زور دیا ہے کہ سب ہنر آزمانے چاہئیں۔

انور میاں ! تمہارے توشہ خانے میں بہت سے اساتذہ اور ہمارے زمانے کے وہ لعل و گوہر جو فہمیدہ کی صورت میں ہم سے جدا ہو گئے اگر حکومت کو اس بے بہا سرمائےکا علم ہو جائے جو تمہاری الماریوں اور ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتا ہے تو اس کا حصول تو ورلڈ بینک بھی چاہے گا۔

ایک اور اہم کام تحریک طالبان پاکستان کو سمجھا دو کہ وہ جو 20سال سے لڑتے کابل فتح کر گئے۔ ان کی طرح تم اس آس میں ہو کہ اکوڑہ خٹک کے جنگجو نوجوانوں کے ساتھ مل کر تم پاکستان میں مملکت اسلامیہ قائم کر سکو گے کہ پہلے کشمیر فتح کرو گے مگر طالبان سے سبق سیکھو، وہ ابھی پاکستانی بنے فنڈنگ کا واویلا کر رہے ہیں۔ عورتوں کو کام کرنے نہیں دیتے اور روز وزیر اعظم کے کان میں بات ڈال دیتے ہو کہ جلدی جلدی طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لو،جب ٹی ٹی پی سے بات کرو تو ان کو بھی چائے میں بسکٹ بھگو کر کھانے کی عادت ڈال دینا۔ وہ تو ویسے ہی ہمیں بھگو بھگو کر مارنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اِدھر طالبان حکومت کے بعد یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ کابل میں اور وہ بھی مسجد کے باہر کوئی دھماکا ہو سکتا ہے جس میں مرنے والے اور زخمیوں کی تعداد بتاتے ہوئے ہم بھی شرمندہ سے ہیں اور ملا برادران بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں۔ شمالی وزیرستان میں بھی ہمارے جوان روز شہید ہو رہے ہیں۔ اب یہ کون بتائے گا کس نے مارا۔ کون بتائے گا کہ افغانی بچے بسوں کے نیچے لٹک کر اسلام آباد سامان اسمگل کر رہے ہیں۔ کون بتائے گا کہ روز ڈالر افغانستان سے کہاں نکالے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں ڈالر نایاب ہو رہے ہیں۔

پرانا مقولہ ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے دوسری مرتبہ نہیں ڈسا جاتا ۔ اب یاد کریں کہ جگہ جگہ ٹی ٹی پی کے مظاہرے اور پھر ان کے ساتھ معاہدے کرنے والوں میں کون کون تھا۔ زر کثیر بھی کس قدر شاید بطور تاوان دیا گیا۔ اب پھروہی فسانہ دہرایا جا رہا ہےاور وہ بھی خودوزیر اعظم سرگرم ہیں۔ وہ معصوم تو پینڈورا کھلنے والے ناموں کو دیکھ کر کبھی سرہانے دھری شکایتوں کی فائلوں کی جانب تو کبھی ان ساری یادوں کو تصور میں لا کر آسمان سے شکوہ کر رہے ہیں اور کبھی پیر بی بی سے اس کا حل پوچھ رہے ہیں۔

مگرانور !وہ تمہاری طرح چائے میں بسکٹ ڈبو کر نہیں کھا رہے ہیں۔ اس وقت صرف انکا شیرو کتا ساری بات سمجھتے ہوئے خاموش بیٹھا ہے۔

آخر میں انور میاں ! یہ جو سائنس دانوں نے انسانی لمس اور حرارت کے مثبت اثرات پر نوبل انعام حاصل کیا ہے کیا یہ کورونا کے دنوں کی طرح کی ملاقات ،میل ملاپ سے جو گزشتہ دو سال گزرے ہیں اور ہمیں انسانیت سے تعلق بھول گیا ہے، کیا یہ اس کے اثرات بتائیں گے ،یقیناً تم اب چائے میں بسکٹ ڈبو کر نہیں کھائو گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین