معاشرے کی بگڑتی صورتحال خاص کر نوجوان نسل کے لئے باعث تشویش ہے گزشتہ چند سالوں سے جس طرح معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کو پامال کیا جا رہا ہے وہ کسی بھی صورت تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کےلیے قابلِ قبول نہیں ۔ گزشتہ چند سال سے ہراسانی (ہراسمنٹ) کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں ۔
اخبارات ،الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر ایسی خبریں تواتر سے پڑھنے کو مل رہی ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے کا اخلاقی توازن بہت زیادہ بگڑتا نظر آرہا ہے، جب بھی ہر اسانی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ہر پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ سوالات ضرور جنم لیتے ہیں، کہ آخر ہم کس معاشرے کے شہری ہیں ؟ نوجوانوں کی تربیت کن ہاتھوں میں ہوئی ہے ؟ کیا والدین آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں؟ اور تعلیم سے ہم نے کیا سیکھ رہے ہیں؟ لیکن شاید کسی کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔ آج کل کے نوجوانوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے
نوجوان پان کی دوکانوں، بس اسٹینڈ، پارکوں، مارکیٹوں میں بے مقصد گھومتے پھرتے، راہ گیروں پر جملے کستے، چھیڑ،چھاڑ کرتے نظر آتےہیں ۔ اسکول، کالج کے سامنے طالبات کو ہراساں کر کے خوش ہورہے ہوتے ہیں، ان کو کوئی روکتا نہیں ہے۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تواسکول ، کالج اور جامعات میں طلبا و طالبات کا اپنے اساتذہ کرام سے ایک پیار و عقیدت کارشتہ ہوتا تھا۔ اساتذہ بھی اپنے طالب علموں کی کردار سازی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے تھے، انہیں اچھے برے کی پہچان بتاتے تھے ،اخلاقیات کا درس دیتے تھے۔ ہرکام اخلاق اور ادب کے دائرے میں رہ کرکیے جاتے تھے۔
کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کوئی غیر اخلاقی حرکت یا فحش زبان کا استعمال کر کے کسی کی دل آزاری کرے۔روز انہ سیکڑوں طالب علم، مرد وخواتین پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے تھے لیکن کبھی بھی ایسا کوئی واقعہ منظر عام پر نہیں آیا ،جیسے آج کل ہورہے ہیں۔ یہی حال پکنک پوائنٹ اور دیگر تفریحی جگہوں اور شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹوں کا تھا لیکن گزشتہ چند سالوں سے دگر گوں صورت حال ہے۔
اگرچہ آج بھی طلباء اور اساتذہ درمیان احترام کا رشتہ ہے اور والدین بھی ہر طرح سے مطمئن ہونے کے بعد اپنی اولاد کو اچھے ،معیاری تعلیمی اداروں اور کوچنگ سینٹر میں داخلہ دلواتے ہیں۔ بچے بھی ماں باپ کا مان رکھتے ہیں لیکن نظر وہی آتا ہے جو زیادہ تر نوجوان کر رہے ہوتے ہیں بعض لڑکے ، لڑکیاں کچھ زیادہ ہی آزاد خیال نظر آتے ہیں ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے مزید ان کے دماغ خراب کر دیے ہیں قابلِ اعتراض ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہیں، جس کا فائدہ اوباش نوجوانوں کے گروہ اٹھاتے ہیں، اسی وجہ سے بھی جرائم کے کیس مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
ان حالات میں بہترین معاشرے کی تشکیل کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ المیہ ہے کہ آج کے نوجوان بگڑ رہے ہیں لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ کل کے بچوں کو بگڑے ہوئے والدین ملیں گے۔نوجوان قوم میں کوئی خرابی یا کوئی بری لت پیدا ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس قوم میں دیمک لگ گئی ہےجو معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔
نسل نومعاشرے کا انتہائی اہم ستون ہے۔ پاکستان کی عظمت اور وقار بلند کرنے میں نوجوانوں کا کردار مرکزی رہا ہے۔ انہوں نے اپنی تہذیب و ثقافت سے دنیا کو محبت خلوص اور امن کا پیغام دیا ہے۔ کل تک جو نوجوان برائیوں کے خلاف صف آراء تھے۔ آج قوم کا وہی نوجوان مختلف قسم کی برائیوں کا شکار ہیں۔
آخر وہ نوجوان کہاں کھوگئے ،جنہیں اقبال نے شاہین کہا تھا؟ وہ نوجوان کہاں کھوگئے جو حق اور انصاف کی خاطر اٹھ کھڑےہوتے تھے؟ ان میں احساس ذمہ داری کا فقدان کیوں ہوگیا؟ کہاں کھو گئےوہ نوجوان جو اپنے والدین اور بزرگوں کا سہارا ہوتے تھے؟
والدین جہاں بچوں کی مروجہ تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، وہاں اگر بچپن سے ان کی اخلاقی تعلیم پر بھی توجہ دیتے تو آج معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا۔ یہی حال آج کل کے اساتذہ کا بھی ہے۔ وہ اگر تعلیم کے ساتھ صرف پانچ منٹ اخلاقیات کا درس بھی دیتے تو آج صورتِ حال کچھ اور ہوتی۔ وقت کا تقا ضا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھنی ہو گی ۔ان کا میل جول کس سے ہے ،دوست احباب کے کیا مشاغل ہیں؟
گھر اگر دیر سے آتے ہیں تو کیوں آتے ہیں، کیا سر گرمیاں ہیں؟ہوئی ہے ان تمام باتوں کا جائزہ لینا ہو گا ۔ نوجوان بھی اپنی شخصیت کو بہتر سے بہتر بنائیں، گفتار ، کردار اور لباس سے آپ کے ظاہر وباطن کا پتا چلے۔ والدین اور بزرگوں کا احترام کریں گے۔ کتابوں کو اپنا دوست بنائیں اور خود کو اسلامی تعلیمات پر گامزن کریں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر وہ چاہیں تو نہ صرف خود کو بلکہ پورے معاشرے کو بدل سکتے ہیں۔ اس کی بہترین تشکیل سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ لیکن سوچیں کہ آج کے بگڑے نوجوان کل کے بچوں کو کیا دیں گے ؟ کیسے والدین ثابت ہوں گے؟