قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کو بانیٔ پاکستان قائداعظم کی طرح اپنے طلباء سے بہت اُمیدیں وابستہ تھیں ۔ انہوں نے مختلف مواقعوں پر طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہیں تعلیم حاصل کرنے پر زوردیا۔
پاکستان کا مستقبل
21جنوری1949کو کنگ ایڈورڈکالج آف میڈیسن کے طلبا ءسے خطاب کرتے ہوئے لیاقت علی خان نے کہا کہ،’’ پاکستان کے مستقبل کا انحصار پاکستان کے نوجوانوں پر ہے۔انہوں نے حصول پاکستان میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ مجھے اس کالج کے طلبا ءکی قربانیوں کا پورا احساس ہے۔ ہمیں پاکستان کو دنیا کی مضبوط ترین طاقت بنانا ہے۔ پاکستان کے حصول کے بعد ہماری جدوجہد کا پہلا مرحلہ ختم ہوگیا، دوسرا مرحلہ ابھی شروع ہوا ہے۔ ہمیں پاکستان کواپنے خوابوں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی کوششوں کو بروئے کارلانا چاہیے اوراسے ایک ایسی ریاست بنانا چاہیے جس کی قائد اعظم کو خواہش تھی‘‘۔
اردو ذریعہء تعلیم
31اگست1949 کو سندھ یونیورسٹی کے پہلے جلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت علی نےکہا کہ’’تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ، ہم اپنی ملکی زبان کو بھی ترقی دیں اور اسے اس قابل بنادیں کہ اس کے ذریعے ادبی ، سیاسی ، فنی ہر طرح کی تعلیم دی جاسکے۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ فوراََ ہی انگریزی کو ترک کر کے اردو کو ذریعہء تعلیم بنا لیا جائے۔ میری رائے میں اس مشورہ پر فوراََ عمل کرنا ممکن نہیں۔
ہم اعلیٰ تعلیم کے لیے اس وقت تک اردو کو ذریعہء تعلیم نہیں بنا سکتےجب تک اس میں ہرطرح کے مضامین کی کتابیں موجود نہ ہوں۔ ورنہ ہمارے طالب علم اس وقت انگریزی زبان کے ذریعے جو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، اس سے وہ بہرہ ور نہیں ہوسکیں گے۔ علم کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جن کے متعلق ہر قسم کی کتابیں انگریزی میں نہ ملتی ہوں، جب تک اس سارے مواد کو اردو میں منتقل نہ کرلیا جائے، انگریزی کو ترک کرنا سود مند ثابت نہ ہو گا۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم جلد از جلد اردو کو اتنی ترقی دیں کہ وہ موجودہ مغربی زبانوں کے ہم پلہ ہوجائے۔‘‘
تعلیم کا مقصد
2جون1950 میں کنگسٹن(کینڈا) میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ،’’ پاکستان میں تعلیم کا مقصد ایک ایسا شعور پیدا کرنا ہے ،جس کے ذریعے ہم اپنی پرانی تہذیب کی بہترین خصوصیات کو ضائع کیے بغیر جدید عہد کے تقاضوں کو پورا کرسکیں، اس کا مقصد عوام سے ناخواندگی ختم کرنا ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے لیے زیادہ مشکلات ہیں جو ہماری کوششوں کے لیے چیلنج ہیں۔ جب تک والدین غربت کا شکار رہیں گے ،ان کا بچہ گھر پر رہے گا اور تعلیم میں ان کے لیے اس وقت تک کوئی کشش نہ ہوگی جب تک تعلیم براہ راست اور فوری طور پر ان کی اقتصادی بہبود سے وابستہ نہ ہو‘‘۔
آپ ایک نئی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں
22جنوری1949کو’’پنجاب یونیورسٹی‘‘ کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے طلباء سے کہا کہ،’’ آپ ایک نئی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں، اس بات کو گرہ میں باندھ لیں کہ، آپ کوزندگی میں بہت سےبری چیزوں کا سامنا کرنا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ صدیوں کی غلامی نے کاہلی، لالچ اور خود غرضی کے ذرائع پیدا کردئیے تھے۔آپ کوبزدل اور بے رحمی، جہالت اور ناانصافی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس وقت حوصلوں کو پست نہ ہونے دیجئے گا۔
یہ ماضی کے باقی ماندہ اثرات ہیں۔ ایسے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئیےا اور مایوس نہ ہوجائیے گا، کیوں اس زندگی میں جس میں آپ داخل ہورہے ہیں ایک خوش نما مستقبل کے طلوع کے آثار بھی نظر آئیں گے،آپ کو یہ نظر آئے گا کہ ہماری ملت کا قلب تندرست اور سالم ہے اگر وہ تندرست اور سالم نہ ہوتا توہم اس منزل تک نہ پہنچ سکتے جہاں آج ہیں‘‘۔
ہماری آئندہ نسلیں اور نظامِ تعلیم
30اکتوبر1950کو پشاور یونیورسٹی کا افتتاح موقع پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ،’’پاکستان اس وقت تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ موجودہ اور آئندہ نسلیں صحیح طریقہ پرتعلیم حاصل نہ کرلیں۔ پاکستان کے لوگوں کو ایک ایسا تعلیمی نظام ورثہ میں ملا ہے ،جس میں کافی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد ہی یہ ان کی ضروریات کے لیے مفید ثابت ہوسکے گا۔ یہ تبدیلیاں جاری ہیں اور یہی وہ اہم کام ہے، جس میں یہ یونیورسٹی بڑا حصہ لے سکتی ہے۔ آپ کاکام تعلیم حاصل کرنا ہے اور اپنی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی صلاحیتوں کو بڑھاناہے وہ طالب علم جو اپنا وقت مطالعہ میں صرف نہیں کرتا، اس چوکیدار کی مانند ہے جو پہرے پر ہے اور سورہا ہے‘‘۔