عبدالواحد سندھی
ایک راجہ تھا، اس نے محل کے سامنے ایک باغ لگوایا۔ باغ کے بیچ میں ایک تالاب تھاجو بہت بڑا اور گہرا تھا اور اس کا پانی دودھ کی طرح سفید تھا۔ تالاب کے کنارے سبزہ اگا تھا جب کہ کیاریوں میں رنگ برنگے پھول کھل رہے تھے ۔
راجہ اپنی رانی کے ساتھ ہر روز شام باغ کی سیر کرنے آتا تھا، رانی کو بھی یہ باغ اچھا لگتا تھا۔ایک روز رانی نے راجہ سے کہا ’’راجہ جی! یہ باغ اچھا ہے، یہاں تالاب بھی بڑا ہے، کیا ہی اچھا ہو، آپ ہنسوں کا جوڑا بھی پالیں، وہ تالاب میں تیرتے ہوئے بہت اچھے لگیں گے‘‘۔
راجہ نے کہا۔ ’’بہت اچھا رانی صاحبہ ، آپ کی خواہش کو جلد پورا کریں گے‘‘۔محل پہنچ کر راجہ نے وزیرکو طلب کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ راج ہنس کا خوب صورت جوڑا لے کر آئے۔ راجہ کے حکم کی تعمیل کی گئی اوردوسرے روز وزیر نے ہنسوں کا جوڑا لاکر راجہ کی خدمت میں پیش کردیا۔
راجہ نے باغ میں بڑا سا پنجرہ بنوایا جس میں اس جوڑے کو رکھا گیا۔ ہنس بھی خوبصورت تھاجب کہ اس کی مادہ ، ہنسنی بھی حسین تھی۔دونوں کے پر برف کی طرح سفید تھے۔ا ن کی دیکھ بھال کے لیے جگو نامی لڑکے کو ملازم رکھا گیاجو بڑی ہوشیاری سے ان کی رکھوالی کرتا تھا۔
ایک دن ہنسنی نے انڈا دیاجسے لے کر جگو محل میں گیا اور اس نے وہ انڈا راجہ اور رانی کو دکھایا۔ دونوں خوش ہوئےاور راجہ نے جگو کو انعام دیا۔ جگو ایک ٹوکرا لایا، اس میں نرم نرم گھاس بچھائی، پھر ٹوکرے کو ایک کونے میں حفاظت سے رکھا۔ ہنسنی نے سات انڈے دیئے۔ جگو ہر انڈا ہوشیاری سے اٹھاتا اور اسے ٹوکرے میں رکھ دیتا۔
اس نے پہلا انڈا بیچ میں رکھاجب کہ باقی چھ انڈے اس کے چاروں طرف اس طرح رکھے جیسے ننھے منے بچے گھیرے کا کھیل کھیلتے ہیں۔ ایک دن ہنسنی کو اپنے انڈے یاد آئے اور وہ انہیں تلاش کرنے لگی لیکن سارا دن ڈھونڈنے کے باوجود نہ ملے تو وہ اداس ہوکر تالاب کے کنارے پروں میں منہ چھپا کر بیٹھ گئی ۔اس نے نہ تو کچھ کھایا اور نہ پیا۔
ہنس بھی اس کے قریب ٹہلتا رہا۔ جگونے جب یہ ماجرا دیکھا تو وہ ہنسوں کی اداسی کا سبب سمجھ گیا۔ وہ ہنسنی کو انڈوں کے پاس لے گیا۔ ہنسنی ان کو دیکھ کر خوش ہوئی اور ’’ہنس ہنس ‘‘ بولنے لگی۔ ہنسنی ٹوکرے میں بیٹھ گئی اور انڈوں کو سینے لگی ۔ وہ ایک مہینے تک ان انڈوں کو سیتی رہی اور ہنس ٹوکرے کے چاروں طرف پھرتا رہا۔
ایک دن جگو صبح سویرے اٹھا۔ دیکھا کہ ہنس اور ہنسنی کے پیچھے راج ہنس کے ننھے منے بچے چل رہے۔ تھے۔ اب اس تالاب میں ہنسوں کا بڑا سا خاندان ہوگیا۔
جگو نے محل میں جاکر راجہ کو بتایا، وہ اپنی رانی کے ساتھ باغ میں آیا۔ اس نے جب ہنس کے بچوں کو دیکھا تو بہت خوش ہوا اور جگو کو انعام دیا۔ہنسوں کی نسل میں اضافہ ہوتا رہا۔ ان کے بچے بڑے ہوئے اور وہ بھی انڈے دینے لگے، ان کے بھی بچے نکلے ۔
بچو: آج اگر آپ تالاب پر جائیں گے تو وہاں درجنوں کی تعداد میں ہنس اور ان کے بچے تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جگو کا انتقال ہوچکا ہے جب کہ ہنسوں کی رکھوالی کے لیے راجہ نے اس کے بیٹے بھگو کو ملازم رکھ لیا ہے۔