یہ جنیوا ہے جہاں کے بنکوں میں لوٹے ہوئے ملکوں کی دولت پوشیدہ پڑی ہے اور جہاں اقوام متحدہ کی ٹوٹی کرسی کے نیچے اور اس اقوام عالم کے ضمیر والی عمارت کے اندر اپنے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، لوگوں کے قتل، گمشدگیوں، ٹارچرکے مارے ہوئے لوگ داد و فریاد کرنے آتے ہیں، انصاف کی جھولی پھیلانے آتے ہیں۔ یہ جنت نظیر ملک سوئٹزر لینڈ جو گھڑیوں اور چاکلیٹوں کے علاوہ دنیا کے غیر جانبدار ترین ملک کی حیثیت رکھتا ہےکیونکہ اسکی فوج یورپ میں سب سے مسلح ترین فوج ہوتے ہوئے بھی دنیا کے کسی بھی ملک کے مسلح تنازع میں شامل نہیں ہوتی۔ یہاں کا پچاس سال کی عمر کا ہر شہری ملک کی ریزرو فوج میں بھرتی ہے جسکے جنیوا کنونشن کے تحت دشمن کے قیدیوں سے بھی احسن سلوک عالمی انسانی قانون بن چکا ہے۔ یہی سرزمین حقیقت میں قوموں کا کعبہ قبلہ ہے کہ جہاں چیونٹی کیلئے بھی جائے امان ہے۔ اور میں نے کئی برس قبل سنا تھا یہاں کے لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔
ہوا یہ تھا کہ کئی برس قبل یہاں سندھ کے تعلیم دان عثمان علی انصاری آئے ہوئے تھے اور وہ کسی سوئس کنبے کے مہمان تھے۔ ایک دن جب وہ ا س گھر کے بچوں کو بٹھا کر انہیں ہمیشہ سچ بولنے اور جھوٹ سے دور رہنے کی تلقین کر ہی رہے تھے تو دوسرے کمرے سے بچوں کی ماں یہ سنتے ہی عثمان علی انصاری پر بپھرتے ہوئے آئی ۔ ماں نے انصاری صاحب پر غصہ کرتے ہوئے کہا " تم جھوٹ کی بات کر رہے ہو ان بچوں نے تو یہ لفظ سنا ہی نہیں کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے" یہ بات ہمارے بڑے ہمیں پند و نصاح کے طور پر ہمیشہ بتایا کرتے تھے۔ یہی بات میں نے پہلی بار جنیوا آنے پر صحافت کے اپنے جرمن استاد پیٹر پروفٹ سے پوچھی تھی۔ تیز حس مزاح رکھنے والے پیٹر نے مجھ سے کہا تھا: "اگر یہ سچ ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے لوگ جھوٹ نہیں بولتے تو پھر سوئس بنکوں کا کاروبار کیسے چلتا ہے؟" ۔میں جب جنیوا میں پہلی بار آیا تھا تب میں نے جانا تھا کہ "یہاں خوبصورتی فرانسیسی بولتی ہے"۔
میں تیسری بار جنیوا آیا تو ایسا لگا کہ یہاں کے لوگ سچ مچ سمجھتے ہیں کہ شاید دنیا بھر کے لوگ فرانسیسی بولتے ہیں ۔ دوسری چیز سوئس لوگوں سے راستہ نہیں پوچھنا اگر راستہ پوچھو گے تو تمہیں اپنی منزل کی فکر ہو نہ ہو لیکن سوئس لوگوں کو تمہاری منزل کی فکر تم سے زیادہ ہوگی وہ تمہیں اگر تمہاری منزل پر نہیں بھی پہنچائیں گے لیکن تمہیںراستے پر لگا کر ہی سکھ کا سانس ليں گے۔ اسی طرح جب میں جنیوا ائيرپورٹ پر علی الصبح اترا تو سیاحوں والی اطلاعاتی ڈیسک کی میزبان نے مجھے میری منزل کا پتہ بمع نقشے کے دیا کہ میرے جیسا بندہ بھی جو اکثر اپنے گھر کا رستہ بھی بھول جاتا ہے وہ سیدھی سڑک لئے اپنی منزل گاہ جا کر پہنچا- یہ منزل گاہ جان ناکس ہاسٹل تھی۔ جسکے عملے میں ڈائریکٹر مائیکل وہاں فرد واحد تھے جو انگریزی بولتے تھے۔ مائیکل کے باپ دادا نارویجن نژاد امریکی تھے جو نیویارک کے بروکلین میں آباد ہوئے۔ ان نارویجن نژاد مائیکل کے آباو اجداد نے بروکلین کا اسپتال قائم کیا تھا جو آج بھی بروکلین سمیت شہر کے بیماروں کی خدمت کررہا ہے۔ مائیکل مجھے بتا رہا تھا کہ جب نیویارک کے ویریزونا پل کی تعمیر ہورہی تھی تو اسکے نقشے میں انکے دادا کے گھر کا ڈرائنگ روم بھی آرہا تھا تو پھر انکی فیملی وہاں سے نیوجرسی نقل مکانی کر گئی۔ جنیوا جیسے مہنگے ترین شہر میں پوسٹ کارڈ پر کسی منظر کا حصہ لگنے والا یہ ہاسٹل جان ناکس اگرچہ عیسائی عقیدے کی طرف سے چلایا جاتا ہے لیکن یہ ہر اقوام مذاہب لامذہب لوگوں کو نہایت ہی معقول رقم پر مفت ناشتے سمیت رہائش مہیا کرتا ہے بالکل ایسے جیسے کراچی کا وائی ایم سی اے۔
لیکن ہاسٹل جان ناکس دنیا بھر کے ان لوگوں پھر وہ بلوچ ہوں، کشمیری کہ سندھی یا کہ تامل، تمام جبر کے شکار لوگ، بے وطن کہ جلاوطن، سرکاری و غیر سرکاری وفود کہ اراکین جنکا قصد یو این یا جنیوا ہوا کرتا ان میں سے اکثر کی جنیوا میں قیامگاہ یہی جان ناکس ہاسٹل یا انٹرنیشنل سینٹر ڈی ریفارمس ہوا کرتا ہے۔ اس دفعہ قصد تھا اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ برائے ریاستی اداروں کی طرف سے اٹھائے جانیوالے لوگوں اور ماورائے عدالت قتل کے موضوع پر ہانگ کانگ کی تنظیم ایشین لیگل ریسورس کی طرف سےپاکستان پر ہونیوالی ایک کانفرنس۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں کشمیری بھی تو بلوچ اور سندھی قومپرست بھی ، تو متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے بھی تو کالعدم سندھی قومپرست پارٹی کے رہنما بھی تو سندھی فائونڈیشن سمیت یورپ اور امریکہ میں سرگرم سندھی اور بلوچی تنظیمیں بھی، پنجاب میں عورتوں پر جبر کے خلاف سرگرم تنظیم کی بشری خالق تو سابق بلوچ قومپرست گمشدگان بھی ۔تم اپنی گمشدگی والے دنوں کے بارے میں لکھتے کیوں نہیں؟ میں نے اک سابق بلوچ گمشدہ نوجوان سے پوچھا۔ ’’جب میں ان دنوں کو لکھنے کیلئے سوچنے بھی بیٹھتا ہوں واپس اسی عقوبت خانے میں خود کو پاتا ہوں،‘‘ اس سابق بلوچ گمشدہ نوجوان کا جواب تھا۔
اسی کانفرنس اور اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں سندھ میں آجکل پولیس کے ہاتھوں ’’ہاف فرائی فل فرائی‘‘ کے نام پر ماورائے عدالت قتلوں کی بھی بازگشت سنی گئی۔ جہاں ڈاکٹر دیپک راج سمیت گزشتہ دو برسوں میں کوئی دو سو افراد ہاف فرائی اور فل فرائی کا نشانہ بنے ہیں۔ صرف حیدرآباد ضلع میں اسی عرصہ میں بہت سے افراد ہاف اور فل فرائی کا شکار ہوئے ہیں۔جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مارے لوگوں کی شنوائی پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں نہیں ہوئی تو انہوں نے جنیوا کا رخ کیا جہاں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے ایستادہ ٹوٹی کرسی گویا ان جبر کے مارے ہوئے لوگوں کی دیوار گریہ بنی ہوئی ہے۔ میں نے اس ٹوٹی کرسی کے گرد بھارتی حکومت کے مظالم کی فریاد کرتے تامل اور کشمیری بھی دیکھے تو حکومتوں اور ایجنسیوں کے ستائے ہوئے سندھی، کشمیری، بلوچ اور اردو بولنے والے بھی۔ زبردستی تبدیلی مذہب کے ذریعے سندھ میں جبری شادیوں کی باز گشت یہاں بھی گونجی۔ لیکن میں نے اس عمارت میں بھی باغی بلوچ سردار کے بیٹے سے ایک پڑھےلکھے نوجوان کو پائوں پڑتے یعنی اسکے گوڈوں پر جھکتے ہاتھ ملتے دیکھا- میں نے سوچا آزادی کے دعوے کرنے والے بھی ذہنی غلامی کا طوق پہنائے ہوئے ہیں۔ میں نے ایک اور نوجوان بلال بلوچ کو بھی سنا جو سرداروں اور نوابزادوں کی سیاست کا شاکی ہے۔ میں نے نوجوان بلوچ رہنما ناصر حمل بلوچ کی باتیں بھی سنیں جسکی باتوں اور آنکھوں میں کل کے بلوچستان کی جھلک تھی۔ جو بہترین اردو شاعری کا مداح تھا۔ ایسٹونیا جیسے ملک سے آئے ہوئے بلوچ نوجوان سے بھی ملا- میں نے کا لعدم سندھی قومپرست تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ کے شفیع برفت کو بھی سنا جن پر بموں کے دھماکے کرنے، ریلوے پٹریاں اڑانے، اور لاڑکانہ کی آٹھ سالہ بچی سمیت کئی لوگوں کو قتل کرنے جیسی دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے کے الزامات ہیں لیکن انکا کہنا تھاکہ انکی تنظیم کے کتنے ہی لوگ اٹھا کر قتل کردئیے گئے ہیں اور بقول انکے وہ جی ایم سید کے فلسفہ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔۔ یقیناً کئی پراکسی جنگیں بھی کام کر رہی ہیں۔ مجھے لائن میں لگے تامل ناڈو کے نوجوان گاندھی نے بتایا کہ بھارتی حکومت ابتک پینتیس ہزار تامل قتل کر چکی ہے اگر اب ہم جو بچے کچھے بچ گئے ہیں انہیں بھی قتل کردے تو کیا فرق پڑتا ہے۔
یہاں کئی برسوں سے رہنے ولے شوکت کاشمیری بھی کشمیریوں پر جبر کی بات کرتے ہیں ۔ ان پراکسی جنگوں کے بیچ ایک دل کی پراکسی بھی ہوتی ہے۔ شاید ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بصیر نوید دل کی پراکسی پر چلتے ہیں کہ انکی تنظیم نے اتنے مختلف الخیال اور خطرناک چاہے خوبصورت خیالوں کے لوگ اپنے اپنے خرچ پر ایک چھت کے نیچے جمع کیے ہوئے تھے۔ جہاں میں نے اپنی نظم ’’لاپتہ‘‘ لوگ پڑھی۔ چارلی چپلن نے کہا تھا شاعری دنیا کے نام محبت کا خط یا لو لیٹر ہے۔میں عظیم ایکٹر اور دنیا کے شہری کے جنیوا کے قریب چپلن نامی شہر بھی گیا جہاں اسکا گھر اور اسٹوڈیو اب میوزیم میں بدلا ہوا ہے۔