اسلام آباد(مہتاب حیدر) فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کے تخمینے کے مطابق ایران سے پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ 30ارب یا 300ملین روپے کا نقصان ہو رہاہےیہ بات ٹیکس کےقومی ادارےکےتیار کردہ سرکاری تخمینے میں بتائی گئی ہے۔ایف بی آرنےحکومت کوبلوچستان کیلئےہنگامی بنیادوں پراہلکاروں اورافسران کی بھرتی، صوبے بھرمیں پالیسیوں میں یکسانیت کیلئےایک خودمختار سنگلپریوینٹیوکلٹریٹ کےقیام،بین الصوبائی سرحدوں پرسمگلنگ کی چیکنگ اور روک تھام ،قانونی تجارت کی سہولت کاری اور غیر ضروری ناکوں کی تکالیف سے بچنے کیلئےمشترکہ چیک پوسٹس کےقیام کی سفارشات پیش کی ہیں۔ادارےنےحکومت کو مرکزی سمگلنگ روٹس بند کرنے، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ویلیویشن کوایران سے زمینی راستے سے درآمدات کی قیمتوں کے تعین کے وقت ماڈل کسٹمز کلکٹریٹ (MCC)کوئٹہ کو اعتماد میں لینے ، زمینی راستے سےدرآمد ہونے والی ایران کی اپنی مصنوعات کوقیمتوں میں15سے 20فیصدرعایت دینے،تجارت کیلئےسہولیات دینےاور موثر کنٹرول کیلئےچمن میں انیٹگریٹڈ ٹرانزٹ ٹریڈمینجمنٹ سسٹم (ITTMS)کی بھی تجاویزدیں۔افغانستانسے سمگلنگ کیلئےمخصوص مرکزی روٹس ہیں جن میں قمر دین۔ کاریز، بادینی، افغانستان۔ ٹوبہ اچکزئی اور باڑابچہ (دالبندین) شامل ہیں جبکہ ایران سے سمگلنگ کے لئے استعمال ہونے والے مرکزی روٹس میں تفتان ،ماشخیل ،پنچگور ، نوشکی،مستونگ، کوئٹہ،سو راب، خضدار، کرخ، شہداد کو ٹ اندرون سندھ شامل ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ کیلئے تقریباً 9روٹس استعمال کئے جاتے ہیں جن میں 1۔چد جی اور پرون سے آنے والا روٹ جو پنجگور میں مل جاتا ہے 2۔پنجگور ،بسیما، سوراب، مستونگ ، کوئٹہ، بولان3۔پنجگور،ناگ، خضدار، ایم 8، لاڑکانہ 4۔گوادر، کراچی براستہ کوسٹل ہائی وے5۔بسیما، خاران ،نوشکی، کنک کچلاک، لورالائی ژوب6۔مند، تربت، گوادر، آوران، 7۔مستونگ، کنک، درخشاں8۔ ماشخیل، دالبندین، افغانستان9۔سمندری راستے کے ذریعے گوادر ، پسنی، لسبیلہ، کراچی کے روٹس شامل ہیں۔ایف بی آرکےماڈل کسٹمز کلکٹریٹ(MCC) کوئٹہ کی آفیشل پریزنٹیشن کےمطابق بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے کیونکہ یہ ملک کے کل رقبے کا 44فیصد ہے۔ بلوچستان کے تین چوتھائی رقبے سے زائد علاقہ (پاکستان کے کل رقبے کا 35فیصد) ماڈل کسٹم کلکٹریٹ کوئٹہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ دو بین لاقوامی سرحدیں اس میں ہیں ۔افغانستان کیساتھ سرحدی علاقہ 1165کلو میٹر اور ایران کیساتھ سرحد تقریباً 450کلو میٹر طویل ہےاور اس طویل علاقے میں سمگلنگ کو موثر طور پر روکنا بہت مشکل ہے سکیورٹی کی مخدوش صورتحال ، انسانی اور مادی وسائل کی شدید قلت جیسا کہ محض 240سٹاف ،افسران تعینات ہیں جبکہ پاک ایران ، پاک افغان بارڈر پر ایف سی کی تعداد 30ہزار کے قریب ہے،ان عوامل کے باعث ٹیکس حکام کو سمگلنگ روکنے میں سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔صرف تفتان اور چمن کے کراسنگ پوائنٹس پر ہی کسٹمز عملہ موجود ہے۔سبی اور نصیرآباد ڈویژنز میں کسٹمز عملےکاایک بھی اہلکار موجود نہیں۔ایران سےپٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ سےاندازاً سالانہ 30ارب کانقصان ہورہا ہے۔بلوچستان کے دیگرتینوں صوبوں سےملحق سرحدی علاقوں میں سمگل شدہ اشیاء کی روک تھام کیلئےاقدامات ناگزیر ہیں جہاں سے ایران اور افغانستان سے سمگل ہونے والی اشیاء پورے پاکستان میں پھیل رہی ہیں۔ یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ کسٹمز میں ناقص ریوارڈمیکنزم سےبھی سرکاری اہلکاروں میں منفی تاثر پھیل رہا ہے اور قومی سطح پرسمگلنگ کےانسداد کی حکمت عملی کےفقدان کا بھی صورتحال پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔کسٹمز اہلکاروں کی مو جو دہ تعداد 548ہے جن میں 10سپرنٹنڈنٹس 17ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس،106انسپکٹرز، 415 ڈرائیو رز، سپاہی شامل ہیں۔