پچھلے چند برسوں میں پاکستان کی سیاست میں بڑھ جانے والی کئی خرابیوں پر قوم کے سنجیدہ اور در د مند حلقے بہت فکر مند ہیں۔ دھرنا۔۔ ورنہ ۔۔ سیشن ہوں، پناما انکشافات کے بعد ادھیڑبن ہو یا چند خواتین کی الزام تراشیاں۔اہل سیاست میں اخلاقیات کو نظر انداز کر دینے یا اخلاق کے منافی رویے اختیار کرنے سے لوگوں کی فکر مندی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ قوم کو درپیش کئی مسائل اور مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے شدید انحطاط اور بحرانی کیفیت میں ہیں۔ پاکستانی قوم کی بھلائی اور ملکی ترقی کے لئے اس وقت آئین میں تبدیلیوں سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں، سیاسی جماعتوں، معاشی میدانوں سمیت ہر شعبہ زندگی میں اعلیٰ اخلاق پر عمل کا عہد کیا جائے۔ اس عمل کی ابتدا سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اراکین سے ہونی ضروری ہے۔ پاکستان میں روز بروز بڑھتے ہوئے بگاڑ کو اس وقت تک روکا نہیں جاسکتا جب تک ملک کے پولیٹکل لیڈرز خود اعلیٰ اخلاق کی مثالیں پیش نہ کریں۔ افسوس کہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت اعلیٰ اصولوں کی پاس داری اور قانون پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل کرنے میں کسی قابل رشک ریکارڈ کی حامل نہیں ہے۔ قول و فعل میں واضح فرق، بے بنیاد دعوؤں اور جھوٹے وعدوں کی بھرمار۔ ایسے طرز عمل حالات اور مسائل پر عوام میں شعور پیداکرنے کے بجائے لوگوں میں بد دلی اور مایوسی پھیلانے اورملکی ترقی کے عمل میں سستی لانے کا بھی سبب بن رہے ہیں۔
پاکستانی قوم گزشتہ تین دہائیوں سے گویا حالت جنگ میں ہے۔ سرحدوں پر کھلی جنگ لڑی جارہی ہو یا دشمن درمیان میں رہتے ہوئے چھپ کر وار کر رہے ہوں، ملک کے دفاع کیلئے یکسوئی اور فوج کے لئے قوم کی تائیدوحمایت بہرحال ضروری ہے۔ پاکستان کے عوام نے ہمیشہ اپنی فوج کو بھرپور حمایت سے نوازا بھی ہے لیکن کیا سیاست دانوں کو بھی مشکل حالات میں اپنے کردار کا کچھ احساس ہے؟ اکثر سیاست دان خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، انکی اولین ترجیح اپنے ذاتی اقتدار کا تحفظ یا اقتدار تک رسائی کی کوشش ہی نظر آتی ہے۔ اقتدار کی اس دوڑ میں اکثر اوقات نہ تو قانون کی پاس داری کو اہمیت دی گئی، نہ ہی اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو سامنے رکھا گیا۔
موجودہ انداز سیاست ہماری نئی نسل کے لئے کئی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے مخالفوں پر بے بنیاد الزامات اور دیگر کئی خرابیاں ہمارے نوجوانوں میں کنفیوژن اور اضطراب کا سبب بن رہی ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ ہمارے پولیٹکل لیڈرز کیسی مثالیں قائم کر رہے ہیں؟
جب قوم کے رہنما ہی سچ نہ بول رہے ہوں تو عوامی حلقوں میں مایوسی بڑھنے لگتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والی نسل کس مزاج اور کس میراث کی حامل ہوگی؟ کسی قوم کے مزاج کا تعین اس کی اشرافیہ اور حکمرانوں کے طرز عمل سے ہوتا ہے۔ کسی معاشرے کا سدھار یا بگاڑ اس کے دولت مند طبقات سے شروع ہوتا ہے۔ حکمران، اعلیٰ افسران، وڈیرے، جاگیردار، بڑے صنعت کار اور تاجر جس طرزِ زندگی کو اختیار کریں گے وہ عوام کی اکثریت کے لئے آرزو اور خواب بنتا چلا جائے گا۔ 50 اور 60ء کے عشروں میں ہمارے ہاں رشوت یا دیگر غیر قانونی ذرائع سے دولت کمانے والے افراد اپنی نظریں جھکا کر اور ناجائز آمدنی چھپا کر رکھا کرتے تھے۔ 70 اور 80ء کی دہائیوں میں کالے پیسے کو ماضی کی نسبت تیز رفتاری سے برداشت اور عوامی قبولیت ملنے لگی۔ 90ء کی دہائی اور اکیسویں صدی کی ابتدائی دونوں دہائیوں میں کالا دھن معاشرے میں کھلے عام نظر آنے لگا۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ حصول دولت میں حلال و حرام کی تمیز مٹا دینا اور اخلاقیات کو نظر انداز کر دینا معاشرے میں انتشار اور خلفشار کا باعث بنتا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانیوں کی وجہ سے جنم لینے والی دولت کی گردش محدود ہوتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رشوت یا حرام آمدنی کا ہر روپیہ کروڑوں انسانوں کی حق تلفی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور آخرکار ملکی معیشت کے لئے کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے اور نوجوان بھی اپنے کیریئر کی ابتدا میں ہی سخت پریشان اور مضطرب ہوتے ہیں۔ حلال و حرام کی باتیں عملی زندگی میں انہیں محض لفاظی ہی لگتی ہیں۔ رشوت یا کسی بھی طرح سے کمائی گئی ناجائز یا حرام آمدنی صرف معیشت پر ہی نہیں بلکہ معاشرے کے کئی شعبوں اور عوام کی نفسیات پر شدید منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
جس قوم کا اخلاق بلند ہو وہاں چند قوانین کے موجود نہ ہونے سے بھی معاشرے کے مجموعی نظم اور ملکی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جہاں اخلاقیات کمزور ہوں گی وہاں سخت سے سخت قوانین بھی عوام کو اطمینان اور مملکت کو استحکام نہیں دے پائیں گے۔ قوم کی اخلاقیات بنانے میں عوام کا حصہ کم اور ملک کے حکمرانوں اور دیگر اکابرین کا حصہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ قائدین کے اچھے اخلاق قوم کا اخلاق بن جاتے ہیں، قائدین کے بُرے اخلاق قوم کی برائیوں کی شکل میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔
کوئی قانون بنانا، ریاست میں اس قانون کا نفاذ اور عوام میں اس کا نفوذ تین علیحدہ علیحدہ امور ہیں۔ قانون بنانے کے لئے اتھارٹی کے ساتھ ساتھ حکمت و بصیرت بھی ہونی چاہئے۔ نفاذ قانون کے لئے ریاست میں حکومتی طاقت اور جبر درکار ہوتا ہے، لیکن کسی قانون کے معاشرے میں نفوذ کے لئے شہریوں کی تسلیم و رضا ضروری ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ پچاس سال سے نافذ عائلی قانون کی مثال زیادہ واضح اور سہل الفہم ہے۔ صدر ایوب خان کے دور 1961ء اور بعد ازاں 1976ء میں نافذ کردہ عائلی قوانین میں شادی کی عمر، جہیز کی حد اور دیگر کئی عائلی امور کے بارے میں قانون سازی کی گئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہر روز ہزار ہا نکاح ہوتے ہیں۔ ان میں سے کتنے نکاح ناموں میں عائلی قوانین کی پابندی کی جاتی ہے؟ دیکھیے! اس قانون کا حکومتی اتھارٹی کی وجہ سے ریاست میں نفاذ تو کردیا گیا لیکن عوام میں اس کے نفوذ کے لئے کوئی خاص کوششیں نہیں کی گئیں۔اس لئے عائلی قانون کے باوجود ملک میں شادی کی عمر، جہیز کی حد اور دیگر کئی عائلی مسائل آج تک موجود ہیں۔ قانون سازی کے وقت نفاذ قانون کی اہمیت اور نفوذ قانون کی صلاحیت جانچ لی جائے تو بعد میں کئی مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں نفوذ قانون کی صلاحیت اس ملک کے حکمران اعلیٰ اخلاق اپنا کر ہی حاصل کرسکتے ہیں۔
سیاسی امور ہوں، معاشی اور معاشرتی معاملات ہوں ملک میں اعلیٰ اخلاق کے فروغ کے لئے سیاست دانوں کو ایک میثاق اخلاقیات (Charter of Ethics) پر اتفاق کرنا چاہئے۔ میثاق جمہوریت تو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہو ا تھا۔ میثاق اخلاقیات پر پاکستان کی سب سیاسی جماعتوں کو صدق دل کے ساتھ اتفاق اور عمل درآمد کا عہد کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔
رُتھ فاؤ :انسانیت کی ایک عظیم خدمت گار
جذام کے مریضوں کے علاج اور بحالی کے لئے اپنے آبائی وطن جرمنی کو خیر باد کہہ کر پاکستان میں مستقل قیام کرنے والی نہایت محترم ہستی مادام رُتھ فاؤ کا انتقال پاکستانی قوم کا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ ایسی بے لوث، ہمدرد، بہت اعلیٰ کردار کی حامل ہستیاں کبھی کبھا ر ہی پیدا ہوتی ہیں۔ اس عظیم خاتون کی کوششوں سے پاکستان 1996ء میں جذام سے پاک ملک قرار پایا۔