• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعلی خبروں سے میڈیا کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے

Todays Print

اسلام آباد (وسیم عباسی) قصور واقعے کے مبینہ ملزم عمران علی کے حوالے سے ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے سنسنی خیز دعووں کے ڈراپ سین نے جھوٹی خبروں کی روک تھام کیلئے ادارے کی سطح پر میکنزم کی غیر موجودگی اور غلط حقائق پیش کرنے پر معافی مانگنے کی اخلاقی روایت کے نہ ہونے کے سبب الیکٹرانک میڈیا میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث چھیڑ دی ہے۔ بدھ کو شاہد مسعود نے اپنے ٹی وی شو میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں عمران علی کے 37؍ بینک اکائونٹس ہیں جن میں غیر ملکی کرنسی اکائونٹس بھی شامل ہیں اور وہ بچوں کی بیہودہ فلموں (چائلڈ پورنو گرافی) کے با اثر بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے۔ اگلے دن سپریم کورٹ نے شاہد مسعود کو طلب کرکے ان دعووں کے حوالے سے شواہد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن سپریم کورٹ میں ’’شواہد‘‘ کرنے اور مبینہ طور پر اس جرم میں ملوث دو وزراء کے نام پیش کرنے کے اگلے ہی دن اینکر نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت اس واقعے کی تحقیقات کرے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور پنجاب حکومت کی مشترکہ طور پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی نے جمعہ کو بتایا کہ عمران علی کا ملک کے کسی بھی بینک میں کوئی اکائونٹ نہیں۔ یہ بات ثابت ہونے کے بعد کہ یہ خبر جھوٹی تھی، اینکر پرسن پر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر زبردست تنقید ہوئی اور ساتھی اینکرز نے انہیں پیشہ چھوڑنے تک کا مشورہ دیا۔ رابطہ کرنے پر پیمرا کے ڈی جی سہیل آصف کا کہنا تھا کہ اب تک ادارے کو شاہد مسعود کی جعلی خبر کے حوالے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی لیکن شکایت ملنے پر ان کیخلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق کے مطابق، الزام ثابت ہونے پر شاہد مسعود کو دس لاکھ روپے جرمانہ اور ان کا شو بند کرنے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم، دی نیوز سے رابطہ کرنے پر شاہد مسعود نے اپنی جعلی خبر پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ڈویلپنگ نیوز تھی اور اگر یہ غلط ثابت بھی ہو گئی تو اس صورت میں بھی وہ اپنے دعوے پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ خبر کسی اخبار کیلئے بھی لکھ رہے تھے جسے ابھی فائل نہیں کیا لیکن ٹی وی چینل پر آپ ایسی خبروں کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں۔ جب شاہد مسعود کو ان کے 35؍ پنکچر والی خبر کا یاد دلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اور خبر ہے جس پر وہ فی الحال بات نہیں کرنا چاہیں گے۔ دی نیوز کے رابطہ کرنے پر پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے اعتراف کیا کہ جعلی خبریں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادارہ موثر انداز سے جعلی خبروں کی لعنت سے نمٹنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی چینلز پر جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے اور کئی اینکرز پر پیمرا نے جھوٹی خبریں پھیلانے پر دو سال تک کی پابندی بھی عائد کی ہے، تاہم یہ اقدامات اس وقت بند ہوگئے جب لاہور ہائی کورٹ نے ان کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج پیمرا بری الذمہ ہو چکا ہے کیونکہ ادارہ گزشتہ دو سال سے جعلی خبروں کی وجہ سے شاہد مسعود کیخلاف کارروائی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرنے والے دوسرے بڑے اینکر ہیں جن پر مسلسل جرمانے عائد کیے جا چکے ہیں اور جھوٹ پھیلانے پر ان پر کئی مرتبہ پابندی بھی عائد کی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا نے ایسے اینکرز کیخلاف اپنے قانون پر عمل کی کوشش کی لیکن نامعلوم افراد نے پیمرا ملازمین کو دھمکیاں دے کر ایسے اینکر کو بچائے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں نے بھی پیمرا کیخلاف حکم امتناع جاری کرنا شروع کر دیئے جس کی وجہ سے ایسے اینکرز کی حوصلہ افزائی ہوئی جو مسلسل جھوٹی خبریں پھیلا ر ہے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسی کئی قوتیں ہیں جو پیمرا کو کمزور کر رہی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں جھوٹی خبر نشر کی گئی ہے۔ ایک اور اینکر نے گزشتہ سال دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پارلیمنٹ تحلیل کرنے والے ہیں۔ 2014ء میں پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ کے باہر دھرنے کے دوران تقریباً روزانہ ہی مختلف چینلوں پر جعلی خبریں نشر ہوتی تھیں۔ ایک ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا تھا کہ پارلیمنٹ اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف سے استعفے کا مطالبہ کرنے والی ہے۔ ایک اور کا دعویٰ تھا کہ جنرل راحیل نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ وہ استعفیٰ دیدیں۔ یہ خبریں جعلی ثابت ہوئیں لیکن کسی ٹی وی چینل نے معافی تک نہیں مانگی۔ حال ہی میں ٹی وی چینلوں نے یہ خبر تک نشر کی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ جعلی خبروں کے پھلتے پھولتے کاروبار نے نہ صرف خبروں کے کروڑو ںصارفین گمراہ ہو رہے ہیں بلکہ عوام کی نظروں میں میڈیا کی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے۔ حال ہی میں چینی سفارت کاروں اور عہدیداروں نے بھی سی پیک کے حوالے سے جعلی خبریں پھیلائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تازہ ترین