برکتیں قرضوں میں نہیں۔ زراعت میں ہیں

October 28, 2021

مہنگائی سے پریشان، سیاستدانوں کی شعبدہ بازیوں سے اکتائی ہوئی، حکمرانوں کی نا اہلی سے گریہ کناں، علاقائی تعصبات سے دل گرفتہ قوم کو ایک اچھے میچ کی خوشخبری سننے کو مل جائے تو یہ قطعی فطری منظر نامہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے جبر کو بھول جائیں۔ فیٹف کو ذہن سے نکال دیں۔ سڑکوں پر نکل آئیں۔

ٹیم واقعی اچھا کھیلی۔ جیت اس کا حق تھا۔ پہلے جب جب ہم بھارت سے ہارتے رہے تو بھارت اچھا کھیلتا رہا ہے۔ اس لئے جیت اس کی ہوتی رہی لیکن کھیل کھیل ہے۔ یہ پانی پت کا میدان نہیں ہے۔ ہم کھیل کو جنگ بنا لیتے ہیں۔ نغمے گاتے ہیں۔ علم بلند کرتے ہیں۔ جنگ کو کھیل سمجھتے ہیں۔ ملک کا دفاع کرنے والی فوج پر طنز کے تیر برساتے ہیں۔

اسے بد دل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کرکٹ ہمارے برطانوی آقائوں کا کھیل ہے۔ ہم اسے جہاد بنا دیتے ہیں۔ یہ رویہ ہمارا الیکشن میں بھی ہوتا ہے۔ ریفرنڈم میں بھی۔

کچھ ٹریڈ یونینوں کو اسلام پسند کہا جاتا ہے۔ جہاں ناپ تول میں ہمسایوں سے سلوک میں غریبوں کی مدد میں مذہب کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں ہم مذہب کا کارڈ استعمال نہیں کرتے۔ اس بہت اچھے میچ اور خوبصورت غیرمذہبی کھیل کو بھی ہندو مسلمان جنگ کا درجہ دے دیا گیا۔

ادھر بھارت میں انتہائی سخت متعصب مودی نے اپنی جمہوریت کی مضبوط روایت کو ہندو توا کے جنگل میں پھنسا دیا ہے۔ وہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ وہ مسلمان کرکٹرز کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے سلوک کی روایت رہی ہے لیکن یہاں بھی انتہا پسندی ہمیں صراطِ مستقیم سے ہٹادیتی ہے۔

وزراء غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔ پھر وقت آتا ہے کہ وہ ایک کالعدم تنظیم کے سامنے سر جھکا کر ہاتھ جوڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیسی ریاست ہے کیسی حکومت ہے جس تنظیم کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے، اس سے مذاکرات کرکے اسے قانونی حیثیت دے رہی ہے۔

اگر آپ اس کو اتنی اہم سمجھتے ہیں تو اسے تسلیم کر لیں۔ سوچنے والے غور کریں کہ ایک اچھا میچ ہمیں ایک قوم بنا دیتا ہے۔ اگر ہم حکمرانی کا اچھا نظام قائم کرلیں تو قوم ایک ہو سکتی ہے۔

اصل مقابلہ بھارت سے ہمارا معیشت، انصاف، زراعت، صنعت، تعلیم، دفاع، انفارمیشن ٹیکنالوجی، قومی اتحاد، لوگوں کی زندگی آسان کرنے میں ہے۔ ہم ان شعبوں میں بھارت سے بہت پیچھے ہیں۔ گزشتہ تحریر میں ہم نے غریب اکثریت کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لئے راشن کارڈ سسٹم کی تجویز دی تھی۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ بھی دیا تھا، ’ایک قوم۔

ایک راشن کارڈ‘۔ ہمیں خوشی ہے کہ چند ایک کرم فرمائوں کے علاوہ سب نے اس تجویز کو پسند کیا۔ راشن کا نظام ایسے ہنگامی حالات میں ہی مناسب ہوتا ہے کہ اکثریت کے لئے آٹا، چاول، چینی، چائے کی فراہمی یقینی بھی ہو جاتی ہے اور وہاں قیمتوں پر کنٹرول بھی عام پاکستانی کی قوتِ خرید کے مطابق ہوتا ہے۔

اس وقت تو لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی والے کو بھی اور آٹھ دس ہزار ماہانہ کمانے والے کو بھی آٹا، چاول، چینی، چائے، دالیں اور گوشت ایک ہی قیمت پر مل رہے ہیں۔ کتنا عدم توازن ہے۔

کتنی شرم کی بات ہے کہ بنیادی طور پر صدیوں سے ایک زرعی ملک کی شناخت رکھنے والے پاکستان کو گندم، چینی بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا میڈیا، نامور اینکر پرسن، معیشت کے ماہرین بڑے بڑے بینکار کوئی بھی اپنی زرعی پیداوار بڑھانے پر زور نہیں دیتا۔

4سے 5مہینے مسلسل دن رات جان لڑاکر کام کرنے والے کسان کی آمدنی کا تخمینہ صرف 100روپے روزانہ بنتا ہے۔ جبکہ شہر میں ایک عام بےہنر مزدور بھی 6سو سے 8سو روپے روزانہ کما لیتا ہے۔ یہ فرق کسان کو بھی زمین چھوڑ کر شہر جانے پر مجبور کرتا ہے۔

کہیں سے ایسی آواز نہیں آتی کہ ہم فی ایکڑ بہتر پیداوار کے ذریعے پاکستان کو خوشحال کر سکتے ہیں۔ غربت کے خاتمے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ زراعت ہمیشہ سے پاکستان کی معیشت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں، پارلیمنٹ کے ارکان نے زراعت کو اولیں ترجیح نہیں دی ہے۔

پاکستان میں انگریز کا قائم کردہ آبپاشی کا بہترین نظام موجود ہے۔ ہماری غفلت سے وہ کم اثر ہورہا ہے۔ بےشُمار چیلنج ہیں۔ جن سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔

صوبائی خود مختاری کے نعرے بلند ہوتے رہے ہیں۔ اب زراعت صوبوں کے اختیار میں ہے۔ اس پر کتنی توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ کاشتکار اور کسان کی حوصلہ افزائی کے لئے بینک کتنی اسکیمیں چلارہے ہیں۔ ان کی آگاہی اور حوصلہ افزائی کے لئے کتنی ورکشاپ منعقد ہورہی ہیں۔ زمینیں پنجاب، سندھ، بلوچستان کے پی میں سونا اگل رہی ہیں۔

ہماری معاشی ٹیمیں سونا واشنگٹن کی عمارتوں میں ڈھونڈنے جاتی ہیں۔ ہر صوبے میں معیاری زرعی یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ بہت عمدہ تحقیق ہورہی ہے۔ بیجوں کی نئی اقسام بنائی جارہی ہیں۔

فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے مشورے، ان یونیورسٹیوں کے علاوہ عام یونیورسٹیوں نے بھی زرعی شعبوں میں تدریس کا اہتمام کیا ہوا ہے لیکن زراعت کے وزیر ان اسکیموں کا اطلاق نہیں کرتے۔ کئی لاکھ ہیکٹر کنواری زمین سونا اگلنے کو بےتاب ہے مگر ہم وصل کی آرزو نہیں رکھتے۔

ہم صرف وقتی طور پر اپنا کیش کا مسئلہ حل کرنے کواقتصادی صلاحیت سمجھتے ہیں۔ قرض سے اتنا عشق ہو گیا ہے کہ کامیاب وزیر خزانہ وہ کہلاتا ہے جو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں کامیاب ہو جائے۔ بعض کارپوریٹ اداروں میں تو اس ڈائریکٹر فنانس کو بونس بھی ملتا ہے۔ جو کمپنی کی املاک گروی رکھ کر بینک سے قرضہ دلواسکے۔

ہماری حکمت عملی اور اندازِ فکر قرضے کی منظوری کو اپنا منزل سمجھنا ہے۔ محنت سے کمائی کو نہیں۔ کسان کی کفالت کرکے۔ جدید مشینری استعمال کرکے ہم اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی فراہمی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ خود کفالت بھی ہے۔

اپنی زمین، اپنے ماحول، اپنے دست و بازو پر انحصار بھی لیکن کوئی فوجی حکومت، پی پی پی، پی ایم ایل(ن)، پی ٹی آئی کی سرکاریں، اپنی زرخیز زمینوں، اپنے جفاکش ہم وطنوں پر بھروسہ نہیں کرتیں۔ مہنگائی کا مستقل خاتمہ، غربت کا دائمی وداع ہمارا خواب بھی نہیں رہا۔ سب کو اب بھی واشنگٹن سے مزید قرض کا انتظار ہے۔

پھر ہمارے سیکرٹریٹ بھی حرکت میں آجائیں گے۔ ہمارے صنعتکار بھی فعال ہو جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)