بے بسی و بے حسی کا منی بجٹ؟

January 16, 2022

معاشیات کی ٹامک ٹوئیاں مار کون رہا ہے؟ کون ہے جس نے مہنگائی کی مے نہیں چکھی؟ کون سی حکومت ہے جس نے جھوٹی قسم نہیں اٹھائی کہ ہم غریبوں کے حامی ہیں؟ اپنے حرص و ہوس سے جو بچ نکلتے ہیں وہ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں ڈوب جاتے ہیں!

تنگدستی گر بسیرا کرلے تو اسے بھگانے کا طریقہ ایک ہی ہے، محنت کی شاہراہ پر چل نکلیں اور اسمارٹ اکنامکس کو بروئے کار لائیں۔ بیساکھیوں والے سو میٹر والی دوڑ کی پھرتی رکھ سکتے ہیں نہ میراتھن ہی میں کمال دکھا سکتے ہیں تاہم فنکاروں کے بل بوتے پر کیمرے کے سامنے یا اخباری صفحے کی ’’زینت‘‘ ضرور بن سکتے ہیں۔

محنت کو بالائے طاق اور ذہانت کو گروی رکھ کر مائیکرو فنانس کارگر ہو سکتی ہے نہ میکرو اکنامکس۔ یہ معاملہ ایسے ہی جیسے کوئی کہے کہ اسٹیٹس مین اسپرٹ کے فقدان سے لیڈرشپ کے رموز مملکت کو سمجھا اور قومی اہداف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں مگر رمز شناس تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں، یعنی دی اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے، خطے میں سب سے مہنگا ہے، مہنگائی دوہرے ہندسوں تک پہنچ گئی ہے اور قرض اور جی ڈی پی کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے‘‘۔ ہمارے کئی بہت پیارے دوست یورپ اور امریکہ سے اکثر خوشی کے ساتھ وہاں پر مہنگائی ہونے کی خبر بھجواتے ہیں۔ بعض اوقات وہ نوٹ بھیجتے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں ہورہی اور کئی دفعہ وہ نوٹ ’’منسلک‘‘ نہیں کرتے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے لیکن وہ ساتھ وہاں کی سہولیات اور انتظامات کا نہیں بتاتے اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی اسٹیٹس کا ویلفیئر سیٹ اپ کتنا معیاری ہے اور گھنٹوں کے حساب سے مزدوری کتنی ملتی ہے، تاہم ان کا یہ معصومانہ انداز اور وکالت ہمیں اچھی لگتی ہے، ان کا اپنی پسندیدہ پارٹی کی مہنگائی کے فضائل بتانا ان کا حق ہے۔ ایسے ہی ایک ریٹائرڈ سیکرٹری دوست نے اس بات پر اعتراض کیا کہ بلاول بھٹو کی 13جنوری والی تقریر کا حوالہ نہیں دینا چاہیے اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تجزیہ کار کو کسی کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس ضمن میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے وہ کوئی بھی بولے اور غلط کو غلط کہنا چاہیے، غلطی پر کوئی بھی ہو، ہو سکتا ہے یہ بات کسی کیلئے غلط ہو مگر تجزیہ کار وہ نہیں جو ’’پاپولر‘‘ بات کرے، تجزیہ کار وہ ہے جو سچی بات کرے۔ چلیے سیکرٹری صاحب اور دیار غیر میں آباد دوستوں کو گزشتہ نومبر کا ایک شماریاتی گورکھ دھندا بتاتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں اضافہ، جو اکنامک پالیسی کے اجلاس میں کیا گیا تھا، اس کا انعقاد کیلنڈر کے مطابق 26نومبر کو ہونا تھا مگر بینک کے مطابق ہنگامی نوعیت کے اجلاس کو ایک ہفتہ قبل، نومبر 19کو کر لیا گیا اور بینک نے شرح سود 150بیس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا اگرچہ ماہرین شرح سود میں اضافہ کی توقع کر رہے تھے مگر 50سے 75بیس پوائنٹس کی حد تک۔ عام آدمی تو یہ سوال بھی کر رہا ہے کہ جب باقاعدہ بجٹ پیش ہو چکا تھا اور منظور بھی، پھر اس منی بجٹ کی ضرورت ہی کیا تھی مگر عام آدمی کے آگے تو ہمیشہ سے جھوٹ بیچا جاتا ہے اور ریاستِ مدینہ کا نام استعمال کرنے اور نیا پاکستان کا خواب دکھانے والے بھی کر تو وہی رہے ہیں، پھر اُن پر اعتبار کیسے بنے؟ آٹا مافیا، چینی مافیا، لینڈ مافیا اور اب کھاد مافیا بھی؟ اگر یہ سب کچھ بلیک میں دستیاب ہو تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ سب ہے مگر منتظمین نہیں ہیں۔ حادثے، سانحے بنتے جا رہے ہیں اور حکمران کہتے ہیں قصور صرف پچھلوں کا ہے۔

موجودہ منی بجٹ اور سابق حکومت کے ترقیاتی کاموں کے متعلق اگر کسی انسٹیٹیوٹ یا پالیسی ساز ادارے کی غیرجانبدار اور معتبر رائے درکار ہو تو کم از کم مجھے نہیں معلوم میں کہاں سے حاصل کروں۔ جدھر دیکھیں کوئی طرفدار ملتا ہے یا مخالف۔ ویسے تو ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے لیکن کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں انجینئرز اور ماہرِ معاشیات کا کلیدی کردار ہوتا ہے، کسی جرنلسٹ یا سیاست دان کو بھی یہی طبقہ سمجھا جا سکتا ہے، سوال پھر وہی کہ کس سے سمجھیں یہاں تو ہر ٹیکنوکریٹ بھی سیاسی زبان بولتا ہے۔ کچھ روز قبل وزیر خزانہ کا بیان سامنے آیا کہ ہماری حکومت تو صرف 3سال سے ہے، پچھلے 70سال سے کیا ہوا ہے؟ جناب شوکت ترین کا سوال بڑا بہترین ہے مگر وزیر موصوف کی حکومت 3سال سے نہیں ہے، انہیں تو اسد عمر، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور حماد اظہر کی ناکامی کے بعد کچھ عرصہ قبل قلم دان سونپا گیا، ان کا تحریک انصاف سے کوئی باقاعدہ تعلق تھا ہی نہیں، علاوہ بریں جس 70سال کی یہ بات کر رہے ہیں، اس میں ماضی میں یہ یوسف رضا گیلانی کے بھی وزیر اور پیپلزپارٹی کے سینیٹر بنے تھے۔ مانا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف تک ہر اس ٹیکنوکریٹ سے امید لگاتے ہیں جس کی آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک میں شنید ہو۔ ان سب ’’مروجہ اور مسلط‘‘ سہولیات کے باوجود اس ملک کی معیشت کی بڑھوتری اور نشوونما کو عالمی برادری میں سے کون سا ملک عزت بخشتا ہے جو باقاعدہ بجٹ کے بعد منی بجٹ پیش کرنے پر مجبور ہو۔ اب گلوبل ویلیج معیشت دیکھتا ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی امریکی کیمپ کا حصہ ہے، چین یا روس کا۔ خارجی ترقی بھی معاشی ترقی پر منحصر ہے، داخلی معاملات کا جہاں یہ عالم ہو کہ اپوزیشن کی آواز دبانے کیلئے کسی اسپیکر کی گنتی کو دیکھا جائے یا نیب اپنا کردار ادا کرے، اپنی کارکردگی سامنے لانے کے بجائے ماضی والوں کا ڈھنڈورا پیٹا جائے، تو عالمی کریڈیبلٹی کو استقامت ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک جوہری توانائی کا حامل، بڑے ممالک میں سے ایک ممتاز ملک اور امت مسلمہ کا لیڈر کہلانے والا پاکستان جسے برادری کے فیصلے کرنے تھے، وہ اس قدر داخلہ و خارجی و معاشی بحران کا شکار ہوگا تو پھر اس کے ضمنی بجٹ کو خواص و عوام بےبسی و بےحسی کا منی بجٹ ہی قرار دیں گے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)