دوسری جنگ عظیم، یہودی ڈائری نگار این فرینک کی مخبری کرنے والے شخص کا نام سامنے آ گیا

January 19, 2022

کراچی (نیوز ڈیسک) ایسا لگتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دور سے دنیا کو پریشان کرنے والی ایک پہیلی کا بالآخر جواب تلاش کر لیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی تحقیقات کاروں کی ایک ٹیم نے اُس شخص کے نام کا اعلان کیا ہے جس نے ’’غالب امکان ہے کہ‘‘ ڈائری لکھنے والی ایک نوجوان یہودی لڑکی این فرینک کی مخبری کی تھی۔ تحقیقات کاروں کے اس گروپ کی قیادت پیٹر وان ٹوئسک کر رہے تھے اور اس میں مورخین، کرمنالاجسٹس، ماہرین نفسیات، ہینڈ رائٹنگ پہنچاننے کے ماہرین اور ایف بی آئی کا ایک ریٹائرڈ اسپیشل ایجنٹ بھی شامل تھے۔ ٹیم نے 6؍ سال تک اس پہیلی کو سلجھانے کیلئے تحقیق کی۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ این فرینک دو سال تک غائب رہنے کے بعد 15؍ برس کی عمر میں ایک نازی حراستی مرکز میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ تحقیقاتی ٹیم کو نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم میں کینال کے کنارے قائم ایک پرانے گودام کے بالائی حصے میں ایک دستاویز برآمد ہوئی جس کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس مخبر کا نام سامنے آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ این فرینک کے والد کو اس مخبر کا نام معلوم تھا۔ برآمد ہونے والی دستاویز دراصل ایک خط ہے جو شاید این فرینک کے والد اوٹو فرینک کو جنگ کے بعد موصول ہوا تھا۔ این فرینک کی فیملی اسی گودام میں دو سال تک روپوش رہی اور 4؍ اگست 1944ء کو انہیں نازیوں نے گرفتار کر لیا۔ این فرینک کی ہلاکت کے بعد ان کی لکھی ہوئی ڈائری وسیع پیمانے پر شائع ہوئی تھی اور اس کے مندرجات کو دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کی زندگی کے بارے میں آنکھوں دیکھا حال ہے سمجھا جاتا ہے۔ یہ ڈائری دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔ این فرینک کے والد اوٹو فرینک ہولوکاسٹ (مرگ انبوہ) سے بچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے ہی اپنی بیٹی کی ڈائریاں شائع کرائیں۔ ٹیم میں شامل ایف بی آئی ایجنٹ ونس پین کاک کا کہنا تھا کہ ایمسٹرڈیم کی ایک یہودی شخصیت آرنلڈ وینڈن برگ نے اپنے خاندان کو بچانے کیلئے فرینک کو نازیوں کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت وینڈن برگ کا حراستی مرکز سے بچنے کا استثنیٰ ختم ہوا تو اسے نازیوں کو قیمتی اور نادر اشیاء فراہم کرنا پڑیں تاکہ وہ اور ان کی بیگم حراستی مرکز (کنسنٹریشن کیمپ) جانے سے بچ سکیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پیٹر وان ٹوئسک کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی افسوس ناک ثابت ہوئی ہے کہ یہودی لڑکی این فرینک اور ان کی فیملی کو دھوکا دینے والا شخص خود یہودی تھا، تاہم اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ این فرینک کے والد اوٹو فرینک کو علم تھا کہ ان کی مخبری میں ملوث شخص وینڈن برگ خود بھی یہودی ہے تاہم انہوں نے لب کشائی سے گریز کیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو حالات مزید بگڑ جائیں گے اور آگ بھڑک اٹھے گی۔ لیکن ونس پین کاک کہتے ہیں کہ یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ نازیوں نے وینڈن برگ کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی جان بچانے کا انتخاب کیا۔ مؤرخین اور دیگر ماہرین پر مشتمل ٹیم نے جدید تفتیشی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کیلئے پہیلی بنے ہوئے اس معمے کو حل کرنے کیلئے 6؍ سال لگا دیے۔ تحقیق کے دوران کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے کئی لوگوں کے درمیان تعلق کا پتا لگانا بھی شامل ہے۔ اس عمل کے دوران سیکڑوں گھنٹے صرف ہوئے۔ وینڈن برگ ایمسٹرڈیم کی جیوئش کونسل کے رکن تھے۔ اس کونسل کو یہودی علاقوں میں نازی پالیسیوں کا نفاذ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ 1943ء میں اس تنظیم کو ختم کرکے ارکان کو حراستی مراکز میں بھیج دیا گیا۔ لیکن تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ تنظیم کو ختم کر دیا گیا لیکن وینڈن برگ کو حراستی کیمپ میں نہیں بھیجا گیا بلکہ وہ ایمسٹرڈیم میں معمول کے مطابق زندگی گزارتے رہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آتی رہی تھیں کہ جیوئش کونسل کے ایک رکن مسلسل نازی افواج کو یہودیوں کے متعلق مخبری کر رہے ہیں۔ ڈچ اخبار دی ووکس کرانٹ میں شائع ہونے والی ایک ر پورٹ میں بتایا گیا تھا وینڈن برگ 1950ء میں حلق کے کینسر کے باعث انتقال کر گئے تھے۔ دوسری جانب این فرینک کی یاد میں قائم کیے گئے میوزیم ’’این فرینک ہائوس‘‘ کی انتظامیہ نے تحقیقاتی ٹیم کے کام کو سراہتے ہوئے اسے متاثر کن قرار دیا ہے۔ میوزیم کے ڈائریکٹر رونلڈ لیوپولڈ کے مطابق نئے انکشافات کے نتیجے میں نئے حالات پیدا ہوئے ہیں جن کی تحقیقات ضروری ہیں۔ تحقیقات میں میوزیم انتظامیہ نے کوئی حصہ نہیں لیا لیکن تحقیقاتی ٹیم کو اپنی تاریخی دستاویزات فراہم کیں۔ تحقیقات کی تفصیلات ایک نئی کتاب ’’دی بیٹریئل آف این فرینک‘‘ میں شائع کی گئی ہیں جسے روزمیری سولیون نے تحریر کیا ہے جبکہ سی بی ایس نے ڈاکیومینٹری بھی تیار کی ہے۔