مناسب راستہ

January 24, 2022

ہر بار ٹرک کی بتی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بتی کی مدح سرائی کیلئے کہ عوام یہ چورن خرید لیں، کچھ لوگ سر پر ہاتھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے قصیدہ گوئی کررہے ہیں۔ صدارتی نظام بھی ٹرک کی ایک ایسی ہی بتی ہے کہ جس کی آڑ میں تن تنہا بیوقوفوں کا قصبہ قائم کرکے اس پر تنہا حکومت کرنے کا خواب بُنا جا رہا ہے چاہے اس کی آڑ میں خاکم بدہن زمین خون سے رنگین ہو جائے یا ملک پارہ پارہ کر دیا جائے بس اپنی دھن میں مگن، ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم ایسی کسی بھی کیفیت سے وطنِ عزیز کو محفوظ رکھیں۔ ایک حکایت ہے اور بڑی دلچسپ کہ ایک قصبے میں ایک دھوکے باز شخص رہا کرتا تھا اس نے ایک دن اپنے گدھے کے منہ میں کچھ اشرفیاں ڈال دیں اور منہ کپڑے سے بند کر دیا پھر اس کو فروخت کرنے کی غرض سے بازار لے گیا۔ بازار جاتے ہی اس نے کپڑے کا منہ کھول دیا اشرفیاں زمین پر گر گئیں تو سب چوکنے ہو گئے کہ یہ کیا ہے؟ وہ بولا کہ بھائیو،میں اس گدھے سے بہت تنگ ہوں، جب بھی میں پریشان ہوتا ہوں تو یہ منہ سے اشرفیاں اُگلنے لگتا ہے اب تو گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں رہی کوئی ہے جو اس کو خرید لے۔ منہ سے سونے کی اشرفیاں نکلنے کا سن کر لوگوں کے منہ میں پانی بھر آیا ایک سے بڑھ کر ایک دام لگا۔ گدھا بک گیا۔ جس نے خریدا تو وہ پریشان ہونے کی اداکاری کرنے لگا کہ منہ سے اشرفیاں نکلیں۔ اشرفیاںنہ نکلیں، وہ سچ میں پریشان ہوگیا توپھر بھی کچھ نہ ہوا ، وہ سمجھ گیا کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ قصبے والوں کو ساتھ لے کر وہ دھوکے باز کے گھر پہنچ گیا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کی بیوی سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بولی کہ اس کا شوہر قریب کے گاؤں میں گیا ہوا ہے۔ کب واپس آئے گا؟ وہ بولی پریشان مت ہوں، میں اپنے کتے کو بھیجتی ہوں وہ واپس بلا لائےگا۔ لوگ حیران ہوگئے، اس نے کہا کہ یہ لو کتا بھیج دیا۔ دھوکے باز وہیں پاس میںہی چھپا ہوا تھا اور بی بی کو سب سمجھا کر گیا تھا خود کتا پکڑا اور گھر واپس آ گیا۔ لوگ گدھے کی بات کو بھول کر کتے کے حوالے سے اچنبھے میں پڑگئے۔ وہ بولا یہ تو روز کی بات ہے کہ یہ کتا مجھے بلاکر لاتا ہے۔ اب کتے کی دھوم مچ گئی، لوگ دھوکے باز سے کتا خریدنے کے لیے بے چین ہو گئے، وہ کچھ بناوٹی پس و پیش کرنے لگا اور پھر سونے کے بھاؤ بھیج دیا۔ اب جس نے کتا خریدا تھا اس نے اپنے غلام کو کہیں بھیجا تا کہ کتے کے ذریعے اس کو بلانے کا کام کر سکے، کتے نے غلام کو کیا بلانا تھا کتا بھی بھاگ گیا اور غلام بھی مڑ کر واپس نہ آیا۔ قصبے والے سخت غصے میں آگئے اور دھوکے باز کے گھر کا گھیراؤ کر لیا وہ دوبارہ گھر سے غائب تھا جب واپس آیا تو بیوی سے پوچھا کہ ان قصبے والوں کی خاطر مدارات کی؟ وہ بولی کے تمہیں برا بھلا کہہ رہے تھے میں کیوں کرتی؟ وہ بولا کہ تجھے مہمانوں کی قدر نہیں، یہ کہہ کر خنجر نکالااوربیوی کو گھونپ دیا، وہ لہو لہان ہوکے مر گئی۔ قصبے والے پہلے قصے کو بھول کر اس کو برا بھلا کہنے لگے۔ وہ بولا پریشان نہ ہو یہ ہمارے لئے معمول کی بات ہے دیوار پر ٹنگا ایک سینگ اٹھایا اور اس کو بیوی کے پاس لیکر آیا تووہ زندہ ہوگئی، قصبے والے حیران رہ گئے۔ وہ بولا کہ یہ طلسمی سینگ ہے جب چاہو بیوی کو مار دو اور جب غصہ کافور ہو جائے تو اس سے زندہ کرلو ۔ منہ مانگی قیمت میں خنجر اور سینگ بک گیا۔ حالاں کہ اس نے کیا یہ تھا کہ بیوی کے پیٹ پر خون کی تھیلی باندھ دی تھی اور خنجر میں ایک بٹن تھا جو خنجر کے پھل کو چھپا لیتا تھا ، اُس نے خون کی تھیلی پھاڑ دی اور ڈرامہ رچا دیا۔ جس نے خنجر خریدا تھا وہ گھر گیا بیوی سے لڑائی ہوئی اور خنجر اسکے جسم میں پیوست کردیا ،وہ غریب وہیںمر گئی جب غصہ اتر گیا تو سینگ سے بیوی کو زندہ کرنے کی کوشش کرنے لگا وہ کیا زندہ ہوتی ؟ اب سب قصبے والے اس دھوکے باز کےگھر گئے اور اسکی ایک نہ سنی اور اسے بوری میں بند کر دیا کہ سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ سمندر دور تھا راستے میں وہ سستانے کیلئے رُک گئے اور سو گئے اور بوری کو تھوڑی دور رکھ دیا گیا۔ دھوکے باز بوری میں بند بھوک سے چیخ و پکار کر رہا تھا کہ وہاں سے ایک چرواہا گزرا ، آواز سنی تو بوری کو کھول دیا اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟ وہ بولا کہ میرے رشتہ دار شہزادی سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں مگر میں اپنی چچا زاد سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر تم اس بوری میں بند ہو جاؤ تو یہ تم کوساتھ لے جائینگے اور پھر تمہاری شادی شہزادی سے کرنے کے علاوہ انکے پاس کوئی اور چارہ نہ ہوگا وہ بیوقوف بن گیا اور یہ اسکی بھیڑ بکریاں لیکر چلتا بنا اگلے دن قصبے والے حیران رہ گئے جب اس کو گھر میں دیکھا اور ساتھ مال مویشی بھی موجود تھے۔ وہ بولا کہ سمندر کے نیچے جل پریوں کے محل ہیں ان میں سے انکی ایک شہزادی مجھے اپنے ساتھ لے گئی اور مجھ سے شادی کرنے اور محل میں رہنے کی دعوت دی ۔ میں نے انکار کردیا مگر پھر بھی اس نے واپس چلتے ہوئے میرے ساتھ یہ ریوڑ کر دیا۔ سمندر میں اتنی جل پریاں ہیں اور ہماری منتظر ہیں کہ سارے قصبے والوں سے بھی زیادہ ہیں کسی نے انکے محلوں میں رہنا ہے؟ سب تیار ہو گئے وہ بولا کہ کل سمندر پر آجانا اور ساتھ بوری اور رسی لیتے آنا اور ایک دوسرے کو باندھنے میں میری مدد کر نا۔ اگلے دن جل پریوں کیساتھ محلوں میں رہنے کی خواہش میں کوئی ایک بھی گھر میں موجودنہ تھا اوروہ خود ہی بوری میں بندھتے اور سمندر برد ہوتے چلے گئے جب آخری کو بھی سمندر میں پھینک دیا تو اس وقت دھوکے باز، بیوقوفوں کی دولت کا تن تنہا مالک بن چکا تھا۔

ذرا غور کریںکہ صنعتی انقلاب، ایماندار آمریت، مذہب کا سیاسی استعمال اور پھر روشن خیالی کے نام پر معاشرے کو مزید کمزور کرنے کے سوا اور کیا ہوا ؟ اور اب طرفہ تماشا یہ کہ اس بار ریاست مدینہ کے نام پربہلایا پھسلایا جا رہا ہے کہ پارلیمانی نظام سے نہیں بلکہ صدارتی نظام سے یہ منزل حاصل ہوگی۔ حالانکہ جب اور تجربات کرلئے اور ناکام ہوگئے تو ایک بار حقیقی آئینی حکمرانی بھی قائم کر کے دیکھ لو ممکن ہے کہ دکھوں کا مداوا ہو سکے اور یہی مناسب راستہ بھی ہے۔