عدت کے اندر نکاح کے بارے میں عدالتِ عالیہ کا فیصلہ اور اس کے بارے میں تحفظات

January 28, 2022

تفہیم المسائل

(گزشتہ سے پیوستہ)

خلاصہ یہ کہ عدالتِ عالیہ کافیصلہ اس حد تک درست ہے کہ مذکورہ کیس میں مرد اور عورت دونوں پر زنا کی حد واجب نہیں ہوگی، لیکن شریعت کی رو سے یہ فیصلہ ناقص اور نامکمل ہے ، عدالت پر لازم تھا کہ فوراً ان دونوں کے درمیان تفریق کردیتی اوران دونوں کو تعزیراً کوئی نہ کوئی سزا دی جاتی، تاکہ آئندہ لوگوں کو ایسے فعلِ حرام کے ارتکاب پر تنبیہ ہو اور سب کے علم میں یہ بات آجائے ،اس کے برعکس عدالت نے ان کے ناجائز نکاح کو محض ’’بے قاعدہ‘‘ کہہ کر رشتۂ ازدواج کو جاری رکھا ،یہ شریعت کی رو سے درست نہیں ہے ، کیونکہ عدت کے دوران علم کے باوجود نکاح اصلاً منعقد نہیں ہوا،پس عدالت کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکے نام حضرت عمرؓ نے لکھا تھا:’’اگر تم نے کل کوئی فیصلہ کیا ہے اور آج تم نے اس پر دوبارہ غوروفکر کیا ہے اور تمہیں راہِ راست کی طرف راہنمائی حاصل ہوگئی ہے تو محض یہ بات کہ تم کل ایک فیصلہ کرچکے ہو ،تمہیں ہر گز حق کی طرف رجوع کرنے سے باز نہ رکھے ،پس یاد رکھو:حق ایک اٹل حقیقت ہے ،اسے کوئی دوسری چیز باطل یا غلط نہیں ٹھہرا سکتی اور یاد رکھو: باطل پر اڑے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ حق کی طرف رجوع کرلیا جائے‘‘۔(اَلْعِقْدُ الْفَرِیْد،ج:1)اگر قاضی اپنے غلط فیصلے پر اڑا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ:’’اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو عُجبِ نفس اُسے گناہ پر ابھارتا ہے ‘‘ ۔ (سورۃ البقرہ:206)

نوٹ: کورٹ سے یک طرفہ خلع کی بابت ہمارے شرعی تحفظات ہیں جو تفہیم المسائل میں مذکور ہیں، تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ کریں۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk