ملکی سطح پر کرکٹ کے پرانے نظام کو بحال کیا جائے

April 19, 2022

پروفیسر اعجاز احمد فاروقی

سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے سوشل میڈیا پر گذشتہ دنوں بلوچستان کے ایک کھلاڑی آفتاب احمد کی جذباتی کہانی، انہی کی زبانی شیئر کی تھی۔ آفتاب احمد کا تعلق بلوچستان کے علاقے قلعہ سیف اللہ سے ہے۔ 24 سالہ آفتاب احمد کا کہنا ہے کہ کرکٹ کی وجہ سے مجھے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا تھا میرے دوستوں نے مجھے اپنانے سے انکار کردیا تھا۔ ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کی کوشش کی ۔ لیگ اسپنر نے 2021-22 کے سیزن میں بلوچستان سیکنڈ الیون کی نمائندگی کی تھی۔

انہوں نے دل موہ لینے والی اس داستان میں آفتاب احمد نے انکشاف کیا کہ ان کے خاندان اور دوستوں نے انہیں کرکٹ سے محبت کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا اور اس کھیل میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باعث وہ خودکشی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ میں نے محنت نہیں چھوڑی۔ سو فیصد محنت کرکے میں بلوچستان کی سیکنڈ الیون کا حصہ ہوں۔ میں آج اس مقام پر کرکٹ کی وجہ سے ہوں۔ میری تقدیر کرکٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر کرکٹ ہی میری امید کی کرن بنی۔ مجھے کرکٹ کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔

لوگوں سے طعنے پڑے اور میں ادھار لے کر زندگی بسر کررہا تھا۔ آفتاب احمد نے کہا کہ میرے ایک دوست پروفیسر لیاقت ،قلعہ سیف اللہ کے ایک آرگنائزرمطیع اللہ اور رمیز راجا نے میری بہت مدد کی۔ قلعہ سیف اللہ میں گرمی بھی شدید ہے اور سردی بھی زیادہ ہوتی ہے میں نوجوانوں کو اپنی مثال دوں گا کہ ہمت نہ ہاریں۔ آفتاب احمد کی کہانی واقعی مثالی ہے۔ لیکن ملک میں کرکٹ سے جڑی کئی اور کہانیاں بھی گذشتہ تین سال سے میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں جس میں کھلاڑی کرکٹ چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔

تین سال پہلے پی سی بی ،ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بند کرکے نیا نظام یہ کہہ کر لانے کا دعوی کیا تھا کہ آسٹریلوی طرز کے اس نظام سے پاکستان کرکٹ میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کو بند کرکے چھ ایسوسی ایشن کی ٹیمیں بنائی گئیں۔ نئے نظام کی وجہ سے تقریبا دو ہزار کرکٹرز بے روز گار ہوگئے اور ملک میں190سے200 کھلاڑیوں تک ڈومسیٹک کرکٹ کو محدود کردیا گیا۔تین سیزن بعد بھی نئے نظام کے ثمرات کا سب کو انتظار ہے۔ تین سال کے دوران کلبوں کی اسکروٹنی مکمل نہیں ہوسکی ہے۔ حکومت کے احکامات پر ایک کے بعد ایک ڈپارٹمنٹ بند ہوئے۔

ریجن ختم ہونے سے سالہا سال سے کام کرنے والے محنتی آرگنائزر کی جگہ ایسے لوگ ایسوسی ایشن کو چلارہے ہیں جن کی اکثریت نے شائد اپنے گھر کے باہر بھی کرکٹ نہیں کھیلی۔ اب پاکستان کرکٹ بورڈ نے تاریخ میں پہلی بار کلبوں کی اسکروٹنی ایک فرم سے آوٹ سورس کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔14ماہ میں ملک میں قائم ایسوسی ایشن کے فرسٹ بورڈ کوشش کے باوجود اسکروٹنی کرانے میں ناکام رہے۔ پی سی بی نے فرسٹ بورڈ کے عہدیداران کو چھ ماہ کی توسیع دے دی لیکن اسکروٹنی کے لئے کمپنیوں سے اشتہار کے ذریعے پیشکشیں طلب کی گئی ہیں اس منصوبے پر لاکھوں روپے خرچ ہوں گے۔

پی سی بی کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کے بغیر بوگس کلبوں کو پی سی بی میں رجسٹر کرا لیا جاتا تھا۔ پی سی بی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 3 ہزار 822 کلبز رجسٹرڈ کلب ہیں۔ جن کی رجسٹریشن آن لائن کی گئی ہے۔ پی سی بی کے مطابق خیبر پختونخوا میں 844، سینٹرل پنجاب میں 788، سندھ میں 670 کلبز رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان میں کلبوں کی اسکروٹنی کو اس طرح کراکر اتنی بڑی رقم خرچ کی جائے گی اس رقم سے کرکٹ کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جاسکتے تھے۔

نئی حکومت کے آنے کے بعد کھلاڑی اور آرگنائزر کو امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک میں کرکٹ کا پرانا نظام لوٹ آئے گا۔ وہ نظام جس نے پاکستان کو ماضی کو ورلڈ کلاس کرکٹرز دیئے۔ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بندش کی وجہ سے متعدد کرکٹرز بے روزگار ہوئے ہیں ، اس لئے نئی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ڈپارٹمنٹ کرکٹ کو بحال کرائے۔ ڈپارٹمنٹ کرکٹ ختم کر کے کھلاڑیوں کو پارٹ ٹائم کرکٹر بنادیا ہے۔ پاکستانی سسٹم کے تقاضے شائد وہ نہیں ہیں جو آسٹریلوی سسٹم میں ہوسکتے ہیں۔

بلوچستان کے آفتاب احمد کی کہانی جذباتی ضرور ہے لیکن لاتعداد کہانیاں ایسی ہیں جنہوں نےڈپارٹمنٹل کرکٹ بند ہونے سے جنم لیا اور کرکٹرز اب کٹ کے بجائے میلے کپڑوں میں مزدوری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سینکڑوں کرکٹرز کو گراونڈ میں لانے کے لئے پرانے نظام کو بحال کرنا ہوگا۔ اسی نظام کی وجہ سے ہم نے ورلڈ کپ،ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ اور چیمپنز ٹرافی سمیت لاتعداد بڑے ٹائیٹل جیتے۔ اس سسٹم کو بحال کرکے ہی پاکستان کرکٹ کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔