زبان پوری تہذیب ہوتی ہے

April 20, 2022

کلام ِ اقبال میں نادر استعارات اور تلمیحات

یہ حقیقت ہے کہ زبان صرف زبان نہیں ہوتی ، پوری تہذیب ہوتی ہے ۔ہر زبان کے پیچھے تاریخ اور تہذیب کھڑے ہوتے ہیں اور اس زبان کی سماجی روایات اور تہذیبی تلازمات کے بغیر اس کے بعض الفاظ و مرکبات کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر کسی شاعر کے خیالات اور استعارات کو تہذیبی اور لسانی پس منظر سے واقفیت کے بغیر سمجھنا بسا اوقات بہت مشکل اور کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہر عظیم شاعر کی طرح اقبال بھی اپنے کلام میں تہذیبی ا ستعارات و اشارات، تلازمات ، علامات اور تلمیحات سے کام لیتے ہیں اور بسا اوقات بہت نادرالورود اور قلیل الاستعمال الفاظ و مرکبات بھی استعمال کرجا تے ہیں۔

آج ایسے ہی چند الفاظ و مرکبات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ اس مختصر تحریر میں صرف چند الفاظ و مرکبات ہی پر بات ہوسکتی ہے :

٭…کج دار و مریز

اقبال کے ہاں یہ ترکیب استعمال ہوئی ہے لیکن اس پر شمس الرحمٰن فاروقی نے اعتراض کیا ہے۔ پہلے اس ترکیب پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

یہ فارسی ضرب المثل یعنی کہاوت ہے اوربعض اوقات اسے الٹ کر یعنی مریز و کج دار بھی لکھا جاتا ہے ۔فارسی میں کج کے معنی ہیں’’ ٹیڑھا‘‘۔ دار کا مطلب ہے ’’رکھ‘‘یعنی ’’دار‘‘ یہاں امر (کسی کام کے کرنے کا حکم دینا)کے طور پر آیا ہے۔ گویا کج دار کا مطلب ہوا ’’ٹیڑھا رکھ‘‘۔ فارسی میں ’’م‘‘ علامت ِ نہی بھی ہے یعنی کسی کام سے منع کرنے یا روکنے کے لیے آتا ہے ، جیسے مَکُن یعنی مت کر، مگو یعنی مت کہہ۔ ریختن فارسی مصدر ہے اور گرانا کے معنی میں آتا ہے۔ اسی ریختن سے ریز ہے اور ریز بھی یہاں بطور امر آیا ہے اور حکمیہ ہے یعنی ’’گرا‘‘ یا’’ گرادے‘‘۔ اس طرح مریز (مَ +ریز)کا مفہوم ہوا ’’مت گرا ‘‘۔

گویااس کہاوت کج دار و مریز کے لفظی معنی ہیں : ٹیڑھا رکھ اور مت گرا۔ مراد یہ کہ پیالے کو ٹیڑھا رکھ لیکن اس میں جو مائع ہے (مثلاً پانی) اسے گرنے نہ دے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ پیالہ ٹیڑھا کیا جائے اور اس میں موجود پانی گرنے بھی نہ پائے۔ مجازاً کج دار و مریز( یا مریز و کج دار) کسی ایسے حکم کی طرف اشارہ کرنے کے لیے آتا ہے جس پر عمل کرنا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہو۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بظاہر کچھ دینے کا ارادہ کرنا لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہ دینا۔

تعجب ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے کامل زبان شناس اور شعرفہمی کے ماہر نقاد اور محقق نے اقبال پر اعتراض کیا اور لکھا کہ’’ یہ فقرہ اتنا غریب ہے کہ میں نے اسے صرف اقبال کے یہاں دیکھا ہے ۔ لیکن اقبال نے بھی اسے غلط استعمال کیا ہے‘‘۔دراصل فاروقی صاحب نے مریز و کج دار کو ٹال مٹول اور بہانہ کے مفہوم میں لیا ہے۔ البتہ ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب نے فاروقی صاحب پر اس ضمن میں خوب گرفت کی ہے اور لکھا ہے کہ فاروقی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ مریز و کج دار کے معنی ٹال مٹول یا بہانہ کے ہیں۔

اسلم انصاری نے لغات کے حوالے سے اس ترکیب کا درست مفہوم واضح کیا ہے۔ انصاری صاحب کے مطابق مریز و کج دار (یا کج دار و مریز) ان احکام کی نسبت بولتے ہیں جن کا بجا لانا دشوار ہو بلکہ ان پر عمل ممکن نہ ہو۔ دراصل کج دار و مریز کے یہ غلط معنی (ٹال مٹول ، بہانہ) پلیٹس نے اپنی لغت میں لکھے ہیں لیکن یہ معنی درست نہیں ہیں اور چونکہ فاروقی صاحب نے یہ معنی پلیٹس سے لیے ہیں چنانچہ انھوں نے اقبال کے ہاں اس کے استعما ل کو غلط بتایا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اسے بالکل درست استعمال کیا ہے۔ اسی مفہوم میں فارسی شاعری میں اس کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں ، مثلاً مولانا روم اور عمر خیام کے ہاں بھی ہے۔ اگرچہ اردو میں اس کا استعمال کم ہی ہوا ہے۔ ضر ب ِ کلیم میں اقبال ’’کارل مارکس کی آواز ‘‘ میں کہتے ہیں :

تری کتابوں میں اے حکیم ِ معاش رکھّا ہی کیا ہے آخر

خطوط ِ خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمائش

اسلم انصاری کے مطابق اقبال دراصل اشتراکیت کے معروف فلسفی کارل مارکس کی زبانی یہ کہہ رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرنے والے ماہرین ِ معاشیات کی کتابوں میں اشکال اور گراف (خطوط ِ خم دار ) کے سوا کچھ نہیں اور یہ ماہرین غریبوں کے دکھوں کے مداوے کے لیے جو حل تجویز کرتے ہیں وہ کج دار و مریز ہیں یعنی ان پر عمل ممکن نہیں ہے اور وہ بظاہر سب کچھ دینے کی بات کرتے ہیں مگر درحقیقت غریبوں کو دینے کا ان کا ارادہ ہی نہیں ہے۔

٭…برات ِ عاشقاں بر شاخ ِ آہو

پہلے تو یہ وضاحت کردی جائے کہ یہاں لفظ برات اردو والی برات کے معنی میں نہیں ہے جو شادی بیاہ میں آتی ہے (اور جسے بعض لوگ بارات بھی بولتے ہیں)۔ یہ فارسی کہاوت ہے۔ فارسی میں برات کے مختلف معنی ہیں اور یہاں مراد ہے : حصہ۔ آہو کہتے ہیں ہرن کو اور شاخ ِ آہو یعنی ہرن کا سینگ۔ برات ِ عاشقاں بر شاخ ِ آہو کے لفظی معنی ہیں : عاشقوں کا حصہ ہرن کے سینگ پر۔

لیکن اس کہاوت یعنی برات ِ عاشقاں بر شاخ ِ آہو کی درست وضاحت بعض لغات میں بھی نہیں کی جاسکی اور فرہنگ ِ آصفیہ کا شمار اگرچہ اردو کی چند بہترین لغات میں ہوتا ہے لیکن اس میں سید احمد دہلوی صاحب نے اس کے معنی درست لکھنے کے باوجود اس کی عجیب وضاحت کی ہے اور لکھتے ہیں کہ چونکہ ہرن کے سینگ پر کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی لہٰذا عدم حصول ِ مراد اور وعدۂ دروغ اور عدم استحکام اور عدم استقلال سے مراد لی جاتی ہے۔

مرادی معنی تو درست ہیں لیکن وضاحت درست نہیں ہے۔ فارسی کی اس ضرب المثل میں لفظ شاخ سے فائدہ اٹھایا گیا ہے اور شاخ چونکہ درخت کی بھی ہوتی ہے اور ہرن کے سینگ کو بھی فارسی میں شاخ کہتے ہیں (کیونکہ بعض اوقات ہرن کا سینگ بظاہر درخت کی شاخ سے مشابہ ہوتا ہے ) ۔ دراصل یہاں مراد یہ ہے کہ جس طرح ہرن کا سینگ وہ شاخ ہے جو کبھی ہری نہیں ہوتی اور جس پر کبھی پھل نہیں آتا اسی طرح عاشقوں کی امید کی شاخ بھی بے ثمر رہتی ہے اور انھیں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ برات ِ عاشقاں بر شاخ ِ آہو سے مراد ہے ناکام رہنا، آرزو پوری نہ ہونا، مقصد حاصل نہ ہونا۔اردو لغت بورڈ کی لغت کے مطابق برات عاشقاں بر شاخ ِ آہو سے مراد ہے جھوٹا وعدہ، بے اعتبار بات۔ اردو کے بعض استاد شعرا کے اشعار سے یہ دونوں مفہوم مترشح ہیں۔ملاحظہ کیجیے: میر تقی میر نے کہا ہے :

لکھے ہے کچھ تو کج کر چشم و ابرو

براتِ عاشقاں بر شاخِ آہو

ناسخ کا شعر ہے :

سوال ِ وصل پر ہلنا پری رو تیرے ابرو کا

اشارہ ہے برات ِ عاشقاں بر شاخ ِ آہو کا

ذوق نے کہا :

سوال ِ بوسہ کو ٹالا جواب ِ چین ِ ابرو سے

برات ِعاشقاں بر شاخ ِ آہو اس کو کہتے ہیں

بانگ ِ درا میں خضر ِ راہ ( جواقبال کی شاہ کار نظموں میں شمار ہوتی ہے )کا شعر ہے :

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار ِ حیلہ گر

شاخ ِآہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

یہاں خضر مزدور سے کہہ رہے ہیں کہ تجھے تیرا حق نہ ملا، صدیوں سے سرمایہ دار حیلوں بہانوں سے تجھے ٹالتا رہا، جھوٹے وعدے کرتا رہا اور جیسے شاخ ِ آہو پر برات ِ عاشقاں ہوتی ہے اسی طرح تیری امید کی شاخ کبھی ہری نہ ہوئی، تیری امید کی شاخ پر کوئی پھل نہ لگا یعنی تو اپنی محنت کے ثمر سے محروم رہا۔

٭…چشمہ ٔ حیواں

اسٹین گاس کی لغت کے مطابق حیوان کا لفظ حیات یا زندگی کے مفہوم میں بھی آتا ہے او ر اس ترکیب میں اسی مفہوم میں ہے۔ گویا چشمۂ حیواں کا مطلب ہے زندگی کا چشمہ، یعنی وہ چشمہ جس کا پانی پینے سے انسان ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے۔ اسے چشمۂ آب ِ حیات اور چشمۂ خضر بھی کہتے ہیں۔ دروغ برگردن ِ راوی، سکندر ِ اعظم کو بھی اس چشمے کا پانی پینے کی خواہش تھی ۔ حضرت خضر اسے اس چشمے پر لے تو گئے لیکن اسے وہ لوگ بھی دکھا دیے جو اس چشمے کا پانی پی کر ہزاروں سال کی عمر پاکر زندہ تو تھے لیکن ضعف و نقاہت کے باعث ہلنے جلنے سے بھی قاصر تھے اور سسکتے ہوئے موت کی آرزو کرتے تھے مگر موت نہیں آتی تھی کیونکہ آب ِ حیات پی چکے تھے۔سکندر بہت افسردہ ہوا اور اس چشمے سے تشنہ لب واپس آیا۔

سچ یا جھوٹ ، یہ قصہ بہت مشہور ہے اور اردو شاعری میں بطور تلمیح بہت آیا ہے، مثلاً غالب نے کہا :

کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہ نما کرے کوئی

اقبال کے ہاں بھی چشمۂ حیواں کی تلمیح چند بار ملتی ہے، مثلاً بال ِ جبریل میں کہتے ہیں:

گدائے مے کدہ کی شان ِ بے نیازی دیکھ

پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ توڑتا ہے سُبُو

یہاں اقبال کا اشارہ اس درویش کی طرف ہے جو حق کا عاشق ہے اور جو آب ِ حیات کے چشمے پر پہنچ کر بھی اپنا پیالہ توڑ دیتا ہے کیونکہ اسے نہ زندگی کی طلب ہے نہ ہمیشگی کی تمنا ۔ لہٰذا وہ نہ آب ِ حیات پینا چاہتا ہے نہ بھر کر اپنے ظرف میں ساتھ لے جانا چاہتا ہے ۔ وہ عاشقِ حق ہے اور دنیا اور زندگی دونوں سے اپنی بے نیازی کا اظہار چشمۂ حیواں پر اپنا پیالہ توڑ کر کرتا ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی