طویل اور صحت مند زندگی پانے کا تصور

April 21, 2022

کیا آپ ہر صبح ایک مقصد لے کر اُٹھتے ہیں؟ ہرچند کہ، ہم میں سے کئی لوگ ہر وقت زندگی میں ایک خاص مقصد کے لیے جستجو کررہے ہوتے ہیں لیکن ہم میںسے اکثر لوگوں کے ساتھ غالباً ایسا نہیں ہوتا۔ یقیناً، یہ ہر شخص کے لیے ایک ’بڑا‘ سوال ہے اور اگر لوگوں سے کہا جائے کہ کل صبح آنکھ کھولتے ہی انھیں اس ’بڑے‘ سوال کا جواب تلاش کرنا ہےاور اس کے بعد بستر سے نکلنا ہے تو شاید کئی لوگ، کوئی معقول جواب نہ پاکر، واپس سوجانے میں ہی عافیت محسوس کریں گے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے تو جاپان کے لوگوں کا ’اِکِیگائی‘ کا تصور آپ کا یہ مسئلہ حل کرسکتا ہے۔

اِکیگائی کے تصور نے ایک ایسی جگہ جنم لیا ہے، جس کا شمار دنیا کی طویل ترین عمریں پانے والی اقوام میں ہوتا ہے اور اب طویل عمر پانے کا یہ تصور جاپان سے باہر بھی مقبول ہورہا ہے۔ لفظ اِکیگائی کے براہِ راست انگریزی یا اردو میں کوئی لفظی معنی نہیں ہیں، یہ جاپانی زبان کے دو الفاظ Ikiruمطلب ’جینا‘ اور Kaiمطلب ’اسے حاصل کرنا جس کی آپ اُمید لگائے بیٹھے ہیں‘ کا مرکب ہے۔ یہ دونوں الفاظ مل کر ’جینے کی ایک وجہ‘ یا ’بامقصد زندگی‘ کا ایک تصور تخلیق کرتے ہیں۔

یہاں’گائی‘ کا لفظ ’کائی‘ سے نکلا ہے، جس کا انگریزی زبان میں مطلب’شیل‘ یا ’خول‘لیا جاسکتا ہے۔ اس تصور کا تعلق، جاپان کی کلاسیکی تاریخ سے جا ملتا ہے، جو 794ء سے 1185ء تک جاری رہا۔ جاپان کی ’ٹویو آئیوا یونیورسٹی‘ کے ماہرِ نفسیات اور ایسوسی ایٹ پروفیسراکیہیرو ہاسیگاوا کے مطابق، یہ تصور جاپانی لوگوں کی زندگیوں میں اقدار کی سوچ کو فروغ دیتا ہے۔

اکیہیرو کہتے ہیں کہ، زندگی کی وجہ یا مقصد تلاش کرنے کے لیے آپ ابتدا میں بنیادی طور پر چار سوالات سے شروع کرتے ہیں:

٭ آپ کس سے پیار کرتے ہیں؟

٭ آپ کس کام میں اچھے ہیں؟

٭ دنیا آپ سے کیا چاہتی ہے؟

٭ آپ ایسا کیا کرسکتے ہیں، جس کے بدلے آپ کچھ کما سکیں؟

غیرجاپانیوں کے لیے، ان چار سوالات کے جواب تلاش کرنے اور ان میں توازن قائم کرنے میں ہی اِکیگائی کا تصور پنہاں ہے اور یہی اس عظیم جاپانی فلاسفی کی توضیح ہے۔ غیرجاپانی افراد کے برعکس، جاپانی افراد کے لیے درحقیقت یہ ایک سست رُو عمل ہے اور اکثر جاپانی باشندے اس کا تعلق ’کام‘ یا ’آمدنی‘ سے نہیں جوڑتے۔ کام یا آمدنی، کچھ جاپانی افراد کے مجموعی اِکیگائی کا ایک حصہ ضرور ہوسکتا ہے۔

اس کا ثبوت، ایک تحقیق کی صورت میں موجود ہے۔ 2010ء میں، جاپان میں2 ہزار مرد اور خواتین سے ایک سروے کیا گیا۔ ان میں سے صرف 31فی صد لوگوں نے ’کام‘ کو اپنا اِکیگائی قرار دیا۔

چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے پروفیسر برائے علم البشریات (اینتھروپولوجی) گورڈن میتھیوز کا کہنا ہے کہ لوگ، اِکیگائی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے جاپانی افراد کے دیگر دو تصورات ’اِتائیکان‘ اور ’جیکو جیتسوگین‘سےبھی مدد لے سکتے ہیں۔ ’اِتائیکان‘ سے مراد ’ایک مقصد یا گروہ یا تفویض کردہ کردار کے ساتھ یکسوئی‘ ہے، جب کہ’جیکو جیتسوگین‘ کا تعلق تکمیلِ ذات کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔

گورڈن میتھیوز کہتے ہیں کہ اِکیگائی پر عمل کرکے آپ بہتر زندگی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں، کیوں کہ آپ کے پاس ’زندگی جینے کے لیے ایک مقصد‘ ہوتا ہے۔ تاہم، وہ سمجھتے ہیں کہ اس جاپانی تصور کو زندگی گزارنے کے لیے واحد انتخاب کے طوپر نہیں دیکھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اِکیگائی کسی بہت بڑی یا غیرمعمولی سوچ کا نام نہیں ہے۔ ہمیں اس تصور کو بس ایک ’سچ بات ہے‘ کے طور پر لینا چاہیے‘‘۔

اوکیناوا، جاپان کے مغرب میں واقع ایک جزیرے کا نام ہے، جہاں غیرمعمولی طور پر سب سے زیادہ ’سو سال یا اس سے زائد‘ عمریں پانے والے افراد رہتے ہیں۔ ایسے خطوں کو ماہرین ’بلیو زون‘ کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ ’بلیوزونز‘ کے ماہر ڈین بیوٹنر کہتے ہیں کہ، اوکیناوا جزیرے کے باشندوں کی زندگیوں میں اِکیگائی سرایت کرچکا ہے۔ ایک خاص قسم کی غذا اور دوستوں کے ’سپورٹ نیٹ ورک‘ کی بدولت یہاں کے لوگ طویل عمرپاتے ہیں، کیوں کہ اس تصور کے ذریعے وہ زندگی میں مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈین بیوٹنر ایک کراٹے ماسٹر، ایک ماہی گیر اور ایک دادی ماں کی مثال دیتے ہیں، جنھوں نے تین مختلف طرز ہائے کی زندگی گزارنے کے باوجود سو سال سے زائد عمریں پائی ہیں۔

تاہم بیوٹنر کا بھی ماننا ہے کہ صرف اِکیگائی پر یقین رکھنا کافی نہیں ہے۔ یہ سارے لوگ، اپنے مقصد کے حصول کے لیے عملی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے، اِکیگائی بھی بدل جاتا ہے۔ آج جن افراد کا اِکیگائی زندگی گزارنے کے لیے کام ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد چوں کہ انھیں مزید کام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، اس لیے انھیں ایک نیا اِکیگائی تلاش کرنا ہوگا۔

محققین کا ماننا ہے کہ ’بلیو زونز‘ میں رہنے والے افراد ناصرف طویل عمر پاتے ہیں، بلکہ وہ دیگر کے مقابلے میں بہتر زندگی بھی گزارتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی عمر کے80اور 90سال کے عشرے میں بھی سرگرم زندگی بسر کرتے ہیں اور دیگر افراد کے مقابلے میںان انحطاطی بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے، جو اکثر صنعتی ممالک کے باشندوں کو اس عمر میں پیش آتی ہیں۔

جاپان کے اوکیناوا جزیرے کے علاوہ، یونان کے جزیرے ’اِیکاریا‘، اٹلی کے ’بارباجیا ریجن‘، کیلی فورنیا کے چھوٹے سے شہر ’لوما لینڈا‘ اور کوسٹاریکا کے جزیرہ نما ’نیکویا‘ کو بھی ’بلیو زونز‘ میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں کے اکثر باشندے سو سال سے زائد زندگی پاتے ہیں۔ ان تمام بلیو زونز میں رہنے والے افراد میں کئی خصوصیات مشترک ہیں، جن میں اِکیگائی بھی شامل ہے۔ یہ لوگ، زیادہ صحت مند اور زیادہ خوش زندگی گزارنے کے لیے ہر صبح خود سے اُٹھنے کے مقصد کا سوال ضرور کرتے ہیں۔