نرسوں کا عالمی دن

May 12, 2022

نرسنگ کی اہمیت اُجاگر کرنے اور اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دنیا بھر میں ہر سال 12مئی کو نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ آج کے دن نرسنگ سے منسلک افراد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس شعبے سے وابستہ خواتین کو درپیش مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز1953ء میں ہوا، جب امریکا کے شعبہ صحت، تعلیم اورفلاح وبہبود سے منسلک ڈوروتھی سودرلیند نے امریکی صدر سے نرسوں کے عالمی دن کا اعلان کرنے سے متعلق رابطہ کیا۔

تاہم اس وقت ڈوروتھی کی پیش کردہ تجویز منظور نہیں کی گئی لیکن تین سال بعد1956ء میں نرسوں کی بین الاقوامی کونسل نے 12مئی کو ’نرسوں کا عالمی دن‘ منایا۔ 12مئی جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹینگل کا یوم پیدائش بھی ہے۔ نرسوں کے عالمی دن کا مقصد فلورنس نائٹ اینگل اور دنیا بھر کی نرسوں کی خدمات کو خراجِتحسین پیش کرنا بھی ہے۔

نرسنگ کا پیشہ

شعبہ صحت میں ڈاکٹرز کے علاوہ سپورٹ اسٹاف، جن میں نرسیں، وارڈ بوائز اور دیگر شامل ہیں، کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مریضوں کی حفاظت، دیکھ بھال اور تیمارداری میں ایک نرس اہم کردار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعبہ صحت میں نرسنگ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم، دورانِ علاج نرس سے ذرا سی غفلت ہو جائے تو عتاب کانشانہ بھی وہی بنتی ہے، حالانکہ اس کے بغیر24 گھنٹے خدمت کا تصور ہی محال ہے۔ کووڈ-19کے دوران دنیا بھر میں نرسوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جس طرح کام کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں نرسیں پیش پیش رہیں، مگر اس وبا نے ان پر گہرے منفی ذہنی اور جسمانی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔

دنیا بھر میں نرسنگ ایک مقدس اور محترم پیشے کے طور پر مقبو ل ہے۔ ڈاکٹر شیرون ایم وینسٹین کے مطابق،’’شعبہ صحت کے معتبرترین افراد میں نرسیں بھی شامل ہیں ،جن کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مریضوں کی خدمت یا علاج میں گزرتا ہے۔ وہ معالج بھی ہیں ، استاد بھی ، وکیل بھی، مفکر بھی اور تو اور موجد بھی۔ ایک نرس مریض کی صحت یابی کےلیے 24گھنٹے فعال نظر آتی ہے۔ نرسنگ کے پیشے سے منسلک مرد یا خواتین، مریضوں کی دیکھ بھال سے بڑھ کر بھی بہت سی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔ میرے نزدیک نرسنگ ایک معزز ترین پیشہ ہے اور نرسیں شعبہ صحت کی روح اور دل کا درجہ رکھتی ہیں‘‘۔

پاکستان میں شعبہ نرسنگ

پاکستان میں شعبہ نرسنگ کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ 1949ء میں سینٹرل نرسنگ ایسویسی ایشن اور1951ء میں نرسز ایسویسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو اس وقت پاکستان میں 162نرسنگ کے ادارے کام کررہے ہیں۔ جسمانی و ذہنی مریضوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے نرسوں کی ذمہ داریاں دُہری ہو گئی ہیں۔ ایک طرف وہ بلا رنگ و نسل مریضوں کی خدمت کے لئے ہمہ وقت حاضر رہتی ہیں، دوسری جانب انہیں مریضوں کے اعصابی رویوں کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نرسوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، جس کا اہم سبب نرسوں کی نائٹ شفٹ ڈیوٹی ہے۔

قدامت پسند ذہن نرسوں کی تمام تر خدمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ان کی نائٹ شفٹ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی ایک بڑی تعداد اپنی بیٹیوں کو صحت کے اس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ صورتحال ہمارے یہاں نرسوں کی کمی کا ایک اہم سبب ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں نرسنگ کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے اور اس کی اہمیت کے بارے میں انھیں آگاہی فراہم کی جائے تاکہ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجائے کہ نرسنگ بطور کیریئر کیوں منتخب کرنا چاہیے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 10مریضوں پر ایک نرس اور نازک امراض میں ایک مریض پر 2نرسیں مقرر ہیں۔

نرسنگ ایجوکیشن

ہرچند کہ پاکستان نرسنگ کونسل کے تحت کئی ڈپلوما اپرنٹس شپ پروگرام اور ماسٹرز ڈگریاں دستیاب ہیں لیکن ملک میں نرسوں کی قلت آج بھی موجود ہے۔ بیشتر اسپتالوں میں نرسنگ کے شعبے میں مرد اور خواتین دونوں ہی خدمات سرانجام دیتے ہیں، جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ذوق و شوق سے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر سیکھتے ہیں۔

پاکستان میںرجسٹرڈ نرسنگ کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال اتنی تاریک نہیں جتنی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل نرسری، پیوپل مڈوائفری اور نرس وائفری میں ڈپلوما کورس کے ساتھ پوسٹ آر این، بی ایس این اور نرسنگ میں بی ایس سی / ایم ایس سی/ڈاکٹریٹ کی اسناد اور کئی دیگر اسپیشل خدمات میںتربیت حاصل کی جاسکتی ہے۔

نرسنگ کا مقام

ملک میں نرسنگ کے پیشے کو پسماندہ لوگوں کے لئے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ نرسنگ کی تعلیم میں مَردوں اور خواتین کے مابین بھی واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ نرسنگ کو کامیاب کیریئر کے طور پر بھی نہیں لیا جاتا۔ سرکاری اور نجی اداروں میں بہت بڑی تفریق بھی اس معاملے کو گمبھیر بنا رہی ہے۔

نرسوں کی کمی، ایک عالمی مسئلہ

نرسوں کی قلت صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں میڈیکل کا یہ شعبہ زوال کا شکار ہے۔ اب کوئی فلورنس ٹائٹینگل مشکل ہی سے پیدا ہوگی۔ تاہم عالمی ادارۂ صحت کے ملینیم اہداف میں فلپائن جیسے ملک کی کامیابیاں قابل تقلید ہیں، جس نے امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں نرسنگ کے شعبے میں اپنے عوام کو روزگار کے وسیع مواقع مہیا کیے ہیں۔ اس ماڈل کو اپنا کر کوئی بھی ملک نہ صرف اپنے ملک میں نرسوں کی کمی کو دور کرسکتا ہے بلکہ گلوبل نرسنگ میں بھی باعزت مقام پا سکتا ہے۔

نرسنگ کو باوقار بنانا

کسی بھی معالج کا مددگار ہاتھ ہمیشہ میل، فیمیل نرس ہی ہوتے ہیں، وہ ان کے لیے سہولتوں کا سامان پیدا کرتے ہوئے اپنے شب و روز ایک کر دیتے ہیں۔ نرس ایک مسیحا ہے، عوام الناس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر دیکھ بھال کرنے والا موجود نہ ہو تو مریض صحت یابی کی جانب کیسے آئے گا، اس لیے اپنی زندگی کے رکھوالوں کی عزت کرنا ہمارا تہذیبی اثاثہ ہونا چاہیے۔

لوگوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ نرس آپ کی بیٹی اور بیٹا ہے، ان کی قدراور حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے ثقافتی و لسانی تعصب کو بالائے طاق رکھ کر احترام انسانیت کو فروغ دینا ہو گا۔ یاد رکھیے دنیا کی باوقار اقوام اپنے عوام کی تعلیم و صحت کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ دوسری جانب معالج کو بھی اپنی مسیحائی کا سبق یاد کرنا ہوگا۔