بیوی کا کھانا پکانا کن حالات پر موقوف ہے؟

May 13, 2022

تفہیم المسائل

سوال: بیوی کا مسلسل یہ رویہ ہے کہ پوری رات جاگ کر موبائل استعمال کرتی ہے، منع کرنے پر جھگڑا اور بچوں کے سامنے گالم گلوچ کرتی ہے ، شوہر اور بچوں کو روزانہ کھانا وقت پر نہیں دیتی، باہر سے کھانا لانے کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ شوہر کو ڈاکٹر نے باہر کے کھانے سے منع کیا ہے ، اس بات پر بھی عورت کے والدین اس کی بے جاحمایت کرتے ہیں۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:ـ عورت اگر ایسے گھرانے کی ہے کہ اُس گھر کی عورتیں کام نہیں کرتیں اور گھر کا کام کاج ملازمین سے لیاجاتا ہے ، تو اب شوہر اُس عورت کو گھر کے کام کاج کے لیے مجبور نہیں کرسکتا ،بلکہ اُس پر لازم ہے کہ اُس کے لیے خادمہ رکھ دے ، بشرطیکہ اس کی استطاعت رکھتا ہو۔

علامہ علاء الدین ابوبکر مسعود کاسانیؒ لکھتے ہیں : ترجمہ:’’ فقیہ ابواللیث نے بیان کیا: یہ (یعنی عورت کو کھانا پکانے پر مجبور نہ کرنا) اُس وقت ہے ، جب اُسے کوئی ایسی بیماری ہو، جس کی وجہ سے کھانا پکانے پر قدرت نہ رکھتی ہو یا کسی مُعزز گھرانے کی بیٹی ہو (جہاں عورتیں گھر کے کام کاج نہیں کرتیں)، لیکن جب وہ کھانا پکانے پرقدرت رکھتی ہو اور ایسی عورتوں میں سے ہو،جو عموماً اپناکام کاج خود کیا کرتی ہیں، تو اسے کھانا پکانے پر مجبور کیا جائے گا ، (بدائع الصنائع ،جلدرابع ، ص:34)‘‘۔

غرض گھریلو کام کاج اور کھانا پکانا بیوی کے خاندانی پس منظر اور شوہر کے معاشی حالات پر موقوف ہے، اگر بیوی کے خاندان میں عورتیں گھریلو کام کاج اور کھانا پکانے کے کام کرتی ہیں ، تو اُسے شوہر کے گھر میں بھی یہ کام کرنے ہوں گے اور اگر اُس کے خاندان میں خادم یا خادمہ کام کرتی ہیں ، تو شوہر کو کوئی انتظام کرنا ہوگا، کیونکہ نان نفقہ کی فراہمی شوہر کی ذمہ داری ہے۔

اسلام نے خوش گوار عائلی زندگی کا مدار زوجین کے ایک دوسرے کے ساتھ فضل واحسان ، مروّت اور حسنِ سلوک پر رکھاہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’ آپس میں ایک دوسرے پر احسان کرنا نہ بھولو، بےشک، اللہ تمہارے ہرعمل کو اچھی طرح جانتا ہے ،(سورۃ البقرہ:237)‘‘۔ اُمّہات المومنین اور سیدہ فاطمۃ الزہرا ءؓ کا بھی گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا ثابت ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی ؒلکھتے ہیں: ’’بعض مالکی علماء نے کہا ہے کہ بیوی پر شوہر کی خدمت کرنا واجب نہیں ہے ،کیونکہ عقد نکاح کا تقاضا یہ ہے کہ عورت اسے مباشرت کا موقع دے ،نہ کہ خدمت کا ،کیونکہ یہ مزدوری کا عقد نہیں ہے اور نہ نکاح کے ذریعے عورت اس کی باندی بن گئی ، نہ یہ عقد اجارہ ہے اور نہ عقد تملیک ، بلکہ یہ صرف عقد ِمباشرت ہے (نکاح کا معنٰی مباشرت ہے)۔ لہٰذا عورت سے شوہر مباشرت کے علاوہ اور کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اگر وہ تمہاری فرماں برداری کرلیں، تو تم ان کو مارنے کے لیے بہانے نہ ڈھونڈو، (سورۃالنساء 34)‘‘ (…جاری ہے…)