خطیبِ اسلام مولانا محمد اجمل خانؒ کا کردار

May 20, 2022

پروفیسر محمد عبد اللہ

جمعیت علمائے اسلام کے سابق مر کزی امیر وسرپرست اعلیٰ، مولانا محمد اجمل خان ؒ جید عالم دین، عظیم علمی روحانی شخصیت ،نڈر وبے باک خطیب، قیام پاکستان کے بعد چلنے والی دینی وسیاسی تحریکات میں صف اول کے راہ نما ، میدان خطابت میں توحید وسنت کی دعوت دینے والے ، عالم باعمل اکابرین کے مشن کے وارث ، گزشتہ صدی کے اکابرین کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے ، آپ علم وعمل، زہدوتقویٰ، اخلاص وللہیت کے پیکر تھے، آپ اہل حق کی جیتی جاگتی تصویر تھے، رب کائنات نے آپ کو مقبولیت سے خوب نوازا تھا، آپ ان عظیم اور خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے، خطیب اسلام کی محفل میں بیٹھ کر ہر انسان کو روحانی اور علمی سکون محسوس ہو تا تھا۔

آپ ؒ بہ یک وقت عالم بھی تھے اور معلّم بھی، محقق بھی تھے اور مصنف بھی ،فقیہ نکتہ رس بھی تھے اورواعظ شیریں بیان بھی ، خطیب شعلہ بیان بھی ، عابد شب زندہ دار بھی تھے اور سالک عبادت گزار بھی ، قلم کے شہسوار بھی تھے اور سیاست کے سرخیل ومدبر بھی ،ولی وقت بھی تھے اور امت کا سر ما یہ بھی۔ نصف صدی سے زائد عرصہ ہر میدان میں دین کی خدمت کی اور امت کی راہ نمائی کی، لیکن جس میدان میں پہچان بن کر ابھرے اور چاندبن کر چمکے، وہ خطابت اور سیاست کا میدان تھا، مولانا محمد اجمل خان ؒ نے اس میدان میں وہ کارنامے انجام دئیے کہ تاریخ بلا شبہ ان پر فخر کرتی ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے عمل کا ہاتھ تھا ،خطیب اسلام ؒ بھی اسی قافلہ حق کے شہسوار تھے۔ آپ کے بیانات اور زندگی میں کوئی تضاد بیانی نہ تھی ۔آپ ان لوگوں میں سے تھے ،جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی جو صفحہ بھی الٹیے،وہ پہلے صفحے سے زیادہ شفاف اور چمک دار نظر آتا ہے۔

آپ نے ملک میں چلنے والی دینی تحریکوں میں جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین کے ساتھ بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔ قیام پا کستان کے بعد سب سے پہلی تحریک امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی قیادت میں 1953ء میں ختم نبوت کے تحفظ کے لیے چلی، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے سر کردہ علماء شریک تھے۔ اس تحریک میں خطیب اسلام، مولانا محمد اجمل خان ؒ اپنے اکابرین کے ساتھ صف اول میں تھے، اس تحریک میں خطبائے ثلاثہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ ، خطیب پا کستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ اور خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان ؒ نے اپنی خطابت کے ذریعے عوام میں ایک نئی روح پھونک دی۔ دس ہزار لوگوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لا ہور کو اپنے خون سے رنگین کیا۔ 53ء کی تحریک ختم نبو ت جاری رہی اور بلاآخر 1974ء میں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ۔

حق و صداقت کا بیان کرنا مولانا محمد اجمل خانؒ کا خاصہ تھا ،یہ اکابر کا ورثہ تھا، اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مقدمے بنے ،جیل اور تھانے کے مہمان بنتے رہے، لیکن شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ ،مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ اور دیگر اکابرین کے مشن کو پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھا، دین کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اٹھنے والی ہر تحریک میں وہ نمایاں نظر آئے۔

آپ نے دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سردھڑ کی بازی لگادی، خواہ اس کے لیے کتنے ہی بڑے امتحان اور صبرو آزمائش کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ 1953ءاور 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ ؒ نے اہم کردار ادا کیا ،ان مقدس تحریکوں میں ہزاروں علماء و مشائخ نے لاکھوں عوام کے شانہ بشانہ ہمہ قسم کے مصائب و آلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عشقِ رسولﷺ میں سردھڑ کی بازی لگا دی اور دین اسلام، ناموس مصطفیٰ ﷺ پرحرف نہ آنے دیا۔ مولانا محمدا جمل خان ؒ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کی خاطر صبح و شام مصروف عمل رہے ۔

کراچی سے خیبر تک اپنے اکابر ؒکے ساتھ عوام کے جم غفیر میں منکرین ختم نبوت کو للکارتے ہوئے نظر آئے اور فر ماتے عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے ۔

آپ ؒ کی تقریر کا ایک ایک جملہ سننے والو ں کے قلوب میں جا کر اثرکر تا اور انقلاب کا ذریعہ بنتا۔ ایبٹ روڈگراؤنڈ اور جامع مسجد رحمانیہ کے درودیوار آج بھی گواہ ہیں کہ آپ نے اپنی خطابت کے ذریعے ہزاروں لو گو ں کے مر دہ دلوں کو حیات بخشی اور بجھے ہو ئے دلوں کو روشن کیا۔

مو لانا محمد اجمل خان ؒ نے مولانا احمد علی لاہوریؒ کی رفاقت میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز فرمایا، مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ کے نائب رہے ، مفتی صاحب ؒ جب ملک سے باہر جاتے تو آپ ہی قائم مقام سیکرٹری جنرل ہوتے حافظ القرآن والحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی ؒ کے دور میں آپ ؒ بطو ر سینئر نائب امیر رہے اور حضرت درخواستی ؒ کی علالت کی وجہ سے طویل عرصہ تک قائم مقام امیر کے فرائض انجام دیئے۔ دیگر تحریکوں کی طرح تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

ایک بار آپ نے فر ما یا کہ آپﷺ کی ختم نبوت کی دلیل آپ علیہ الصلو ۃ والسلا م کا حسن وجمال ہے، کیوں کہ تما م مخلو قات میں سب سے زیادہ حسین انبیائے کرام علیہم السلام ہو تے ہیں، لیکن انبیائےکرام علیہم الصلوٰۃ والسلا م میں سب سے زیادہ حسین بلکہ احسن واجمل سیدنا محمدﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ پر پروردگار نے حسن و جما ل کی انتہا کر کے بتا دیا کہ اب میرے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کو ئی نبی نہیں، جیسے میر ے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حسن و جمال ختم ہے، ایسے ہی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نبو ت ختم ہے، ایک بار جلسے سے خطاب کر تے ہوئے فرمایا لوگو، نبی کی نشانی یہ ہے کہ فرش پر اس کا کوئی استاد نہیں ہوتا، وہ فرش پر کسی سے نہیں پڑ ھتا، بلکہ عر ش والے سے پڑ ھتا ہے۔ (الرحمٰن علم القر آن) اور مرزا قادیانی سے پوچھو کہ اس نے اسکول پڑھا ہے یا نہیں؟ یہ دلیل ہے اس کے جھوٹے ہونے کی اس نے زمین والوں سے پڑھا ہے اور زمین والوں سے پڑ ھنے والا نبی نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کو ختم نبو ت اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰ ۃ والسلا م کی امامت کا شرف بخشا ،تاج شفاعت عطا فرمایا ،لوائے حمد سے نوازا ،حوض ِکو ثر جیسی نعمت بخشی ،امت کے لیے مغفرت کے وعد ے فرمائے ہیں۔ یہ امام الانبیاء سید المرسلین خاتم النبیین، حضرت محمد ﷺ کی عظمت اور ختم نبوت کی روشن نشانیاں ہیں۔

ایک موقع پر آپ نے فرمایا، قر آن مجید نے میرے نبی سید نا محمد رسول اللہﷺ کو سر ا جاً منیرا کہا ہے، سراج عر بی زبان میں سورج کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے دو سرے مقام پر’’ سر اجاً وھا جا‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں، ایک آسمانی سورج ہے، ایک روحانی سورج ہے اور یہ آسمانی سورج بھی، روحانی سورج کے طفیل ہے ،اب آسمانی سورج کے طلوع ہونے کے بعد جیسے کسی روشنی کی ضرو رت نہیں، ایسے ہی اس روحانی سورج کے بعد بھی کسی نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

ایک بار فرمایا: لو گ اعتر اض کر تے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے نما ز بھی ہماری طرح پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں ،ان کا رہن سہن اور دیگر عبادا ت بھی ہماری طر ح ہے تو فرق کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مر زائی لاکھ نماز پڑھیں ،روزے رکھیں ،عبادات کر یں ،پوری رات میں دو رکعت میں روزانہ ایک قر آن مجید کی تلاوت کریں، ان کی عبا دت قبو ل نہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ حضوراکرمﷺ کو آخری نبی نہیں ما نتے، لہٰذا عبادت وہ قبول ہے جس پر حضور ﷺ کی ختم نبوت کی مہر لگی ہو۔

ایک اجتماع میں ختم نبوت کے حوالے سے ایک عجیب نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ کے نام پاک محمدﷺ میں ختم نبو ت کا نکتہ موجود ہے، آپﷺ کا نا م نامی اسم گرامی محمدﷺ حمد سے بنا ہے اور حمد ہمیشہ نعمت کے پورا ہو جا نے پر ہوتی ہے۔ کسی پیغمبر کے نام میں حمدکا صیغہ نہیں ہے ، لیکن جیسے ہی آنحضر ت ﷺ کو بھیجنے کی باری آئی تو نام ایسا رکھوا دیا جس میں حمد موجود ہے، محمدﷺ، کیوں؟ تا کہ دنیا جان لے نبو ت کی جس نعمت کا آغاز حضر ت آدم ؑ سے ہو ا تھا، اس کی تکمیل اب حضر ت محمدﷺ پر ہو چکی ہے۔

خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خانؒ کی خطابت کی ایک خاص بات جو سب نے تسلیم کی کہ آپؒ نے حق بات کہنے میں کسی کی پروا نہیں کی، جوبا ت حق نظر آئی، وہ اپنی خلو ت میں بھی کہی اور جلوت میں بھی کہی، آپ وہ کہہ گئے جو ان کے منصب کا حق تھااور صرف کہا ہی نہیں ،بلکہ اپنے منصب خطابت کا حق ادا کیا، ملک میں جب نظام مصطفیٰ کے نفاذ اور مقام مصطفیٰ ؐ کے لیے تحریکات چلیں، تو آپ ؒصف اول میں نظر آئے۔ 1953کی تحر یک ختم نبوت سے لے کر اپنی وفات تک ملک میں چلنے والی تمام تحر یکات میں آپ نے اکابر ین کے ساتھ نمایاں کردار ادا کیا۔