• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علّامہ ہشام الٰہی ظہیر

نزولِ قرآن انسانیت کی تاریخ کا وہ عظیم ترین واقعہ ہے جس نے کائنات کے فکری، روحانی اور تہذیبی نقشے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ آخری کتاب، جو اپنے اندر کامل ہدایت، روشن اصول اور ابدی سچائیاں سموئے ہوئے ہے، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی۔ 

اس نزول کی عظمت اور ہیبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہی قرآن کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا، لیکن انسان کو اس ذمہ داری کے قابل سمجھا گیا، اس لیے یہ پیغام اسی کے سینے پر رکھا گیا ،تاکہ وہ سوچے، سمجھے اور اپنی زندگی اسی روشنی میں بسر کرے۔

قرآن کے نزول کی تاریخی ترتیب بھی اپنی مثال آپ ہے۔ جبرائیلِ امینؑ اللہ کا پیغام وحی کی صورت میں لے کر آتے رہے، کبھی مکہ کی بے آب و گیاہ وادیوں میں، کبھی مدینہ کی روشن گلیوں اور گنجان بازاروں میں۔ کچھ آیات مکہ میں نازل ہوئیں، جن میں بنیادی عقائد، ایمان، آخرت، صبر، استقامت اور ظلم کے مقابلے میں ثابت قدمی کی تعلیم دی گئی۔ 

جبکہ مدینہ میں نازل ہونے والی آیات نے اجتماعی زندگی، معاشرت، ریاست، معیشت، عدل، قانون اور جہاد کے اصول متعین کیے۔ یوں قرآن نے انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی نظام تک ہر پہلو کو روشنی دی۔

پہلی وحی کا آغاز ’’اقرأ‘‘ یعنی ’’پڑھ‘‘ سے ہوا، جو اس بات کا اعلان تھا کہ اسلام کی بنیاد علم، تحقیق، شعور اور سمجھ پر رکھی گئی ہے۔ یہ پیغام کہ پہلے پڑھو، پھر سمجھو، پھر عمل کرو، آج بھی اُمّتِ مسلمہ کے لیے کامیابی کی سب سے مضبوط بنیاد ہے۔ قرآن نے انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر فکر کی روشنی عطا کی اور بتا دیا کہ علم کے بغیر نہ ایمان مضبوط ہوتا ہے، نہ کردار بنتا ہے اور نہ معاشرہ سنورتا ہے۔

قرآن کے بارے میں اللہ نے خود اعلان کیا کہ اس کی حفاظت کا ذمہ وہ خود لے گا۔ انسانی تاریخ میں یہ واحد کتاب ہے جو چودہ صدیوں کے باوجود اپنے اصل متن، اصل شکل اور اصل ترتیب میں موجود ہے۔ نہ اس میں کمی ہوئی، نہ زیادتی؛ نہ کوئی لفظ بدلا، نہ کوئی مفہوم متاثر ہوا۔ 

لاکھوں حفاظ نے اسے اپنے سینوں میں محفوظ کیا، کروڑوں مسلمانوں نے اسے زبانوں سے پڑھا، اور اربوں نے اسے عملی زندگی میں اپنایا۔ یہی وہ اعجاز ہے جس نے قرآن کو دنیا کی تمام کتابوں سے منفرد بنا دیا۔

نزولِ قرآن نے انسان کو وہ اصول دیے جو زندگی کو متوازن اور منظم بناتے ہیں۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہدایت کہاں ہے؟ بھٹکاؤ سے کیسے بچنا ہے؟ ظلم کیا ہے اور عدل کیا ہے؟ انسانیت کا مقام کیا ہے؟ اور اخلاقی پاکیزگی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ قرآن نہ صرف روح کو سکون دیتا ہے، بلکہ عقل کو بھی دلیل فراہم کرتا ہے۔ اس کا ہر لفظ، ہر حکم، ہر اصول انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اسی لیے یہ کتاب پڑھنے والے کی زندگی کو بدلنے کی قوت رکھتی ہے۔

قرآن مجید نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو ایک مکمل دستور، منشور، آئین اور قانون کی صورت میں منظم کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف انفرادی اخلاقیات کی بنیاد رکھتی ہے، بلکہ اجتماعی رشتوں، حقوق اور ذمہ داریوں کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہے۔

قرآن نے زندگی کے امور کو ایسے متوازن طریقے سے پیش کیا ہے کہ وہ ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے قابلِ عمل ہیں۔ خاص طور پر، یہ کتاب رشتوں کی اہمیت پر زور دیتی ہے اور ہر فرد کے حقوق کو اللہ کی طرف سے متعین کرتی ہے، تاکہ معاشرہ عدل، احترام اور ہم آہنگی پر قائم رہے۔

قرآن مجید انسانی معاشرے کے لیے ایک مکمل قانونی اور اخلاقی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ سورۂ البقرہ میں اللہ فرماتا ہے: "یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے"۔ یہ کتاب بنیادی عقائد سے لے کر معاشی، سیاسی اور قانونی اصولوں تک سب کچھ بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، عدل و انصاف کے اصول، معاہدوں کی پابندی اور ریاست کے امور میں مشاورت جیسے احکامات ایک مکمل آئین کی صورت میں موجود ہیں۔

قرآن نے جرائم کی سزاؤں (حدود)، مالی معاملات (وراثت، سود کی ممانعت)، اور اجتماعی فیصلوں کے لیے ایک منشور پیش کیا ہے جو انسانی حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ قانون نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ہے، جیسا کہ سورۂ الروم میں کائنات کے قوانین کا ذکر ہے جو اللہ کی طرف سے متعین ہیں۔

ازدواجی زندگی کے حقوق اور رہنمائی: ۔قرآن نے شادی اور ازدواجی زندگی کو ایک مقدس رشتہ قرار دیا ہے اور اس کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ سورۂ الروم میں فرمایا گیا: "اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحم رکھا"۔

شوہر کے حقوق میں بیوی کی اطاعت اور وفاداری شامل ہے، جبکہ بیوی کے حقوق میں مہر، نان نفقہ، احترام اور عدل کی ضمانت ہے۔ (سورۂ النساء: 34-35) طلاق، عدت اور دوبارہ شادی کے احکامات (سورۂ البقرہ: 228-232) بھی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں ،تاکہ ازدواجی زندگی متوازن رہے اور ظلم نہ ہو۔

والدین کے حقوق: ۔قرآن نے والدین کے احترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ سورۂ الاسراء میں فرمایاگیا: "اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو" ۔ 

بچوں پر لازم ہے کہ وہ والدین کی خدمت کریں، ان کی بات مانیں، اور بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال کریں۔ حتیٰ کہ اگر والدین غیر مسلم ہوں تو بھی ان کے ساتھ نیکی کا حکم ہے۔ (سورۂ لقمان: 15)یہ حقوق مالی امداد، احترام اور دعا تک پھیلے ہوئے ہیں۔

قرآن نے بچوں کو اللہ کی امانت قرار دیا ہے اور ان کے حقوق کو محفوظ کیا ہے۔ سورۂ النساء میں وراثت کے احکامات (النساء: 11-12) بچوں کے مالی حقوق کی ضمانت کرتے ہیں۔ تعلیم، تربیت اور اخلاقی رہنمائی (سورۂ لقمان: 13-19) 

ان کے روحانی حقوق ہیں۔ قرآن نے بچیوں کے حقوق پر خاص زور دیا ہے، جیسا کہ زندہ دفن کرنے کی ممانعت (سورۂ التکویر: 8-9) اور مساوی محبت کا حکم۔ بچوں کی حفاظت، غذائیت اور صحت کے امور بھی قرآن کی تعلیمات سے مستفید ہوتے ہیں۔

بزرگ افراد معاشرے کی دانش اور برکت ہیں، اور قرآن ان کے احترام پر زور دیتا ہے۔ سورۂ الاسراء کے احکامات میں والدین اور بزرگوں کے ساتھ نرمی اور احسان کا حکم ہے۔ معاشرے کو چاہیے کہ وہ بزرگوں کی دیکھ بھال کریں، ان کی تنہائی دور کریں، اور ان کی ضروریات پوری کریں۔ یہ حقوق مالی، جذباتی اور سماجی سطح پر ہیں، جو اللہ کی طرف سے متعین ہیں تاکہ بزرگ معاشرے سے الگ نہ ہوں۔

قرآن نے خواتین کو مردوں کے برابر انسانی حقوق دیے ہیں۔ سورۂ النساء میں فرماتا ہے: "مردوں کا حق ہے ان پر جیسا کہ عورتوں کا حق ہے مردوں پر"۔ وراثت، مہر، تعلیم، ملکیت اور گواہی کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔(سورۂ البقرہ: 282) 

قرآن نے عورتوں کو طلاق کا حق (خلع)، احترام اور حفاظت دی ہے۔ حجاب اور پاک دامنی کے احکامات ان کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، جبکہ معاشرتی کردار میں انہیں مساوی حیثیت دی گئی ہے۔

غیر مسلموں کے حقوق: ۔قرآن نے غیر مسلموں کے ساتھ عدل اور احسان کا حکم دیا ہے۔ سورۂ الممتحنہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اللہ تمہیں اس سے نہیں روکتا کہ تم ان سے نیکی اور انصاف کرو جو تم سے دین کے معاملے میں نہ لڑے ہوں"۔ (الممتحنہ: 8)

غیر مسلم شہریوں کے حقوق میں حفاظت، مذہبی آزادی اور مالی تحفظ شامل ہے۔ (سورۂ التوبہ: 29)۔ قرآن نے جبراً مذہب تبدیل کرنے کی ممانعت کی ہے ۔(سورۃ البقرہ: 256) اور ہمسایوں، یتیموں اور غریبوں کے حقوق میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ اصول بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔

یہ تمام حقوق قرآن میں ایک مکمل نظام کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں جو انسانی فطرت، عدل اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہیں۔ یہ منشور نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کے لیے ہے، جو معاشرے کو ظلم سے پاک اور ہم آہنگ بناتا ہے۔

مگر ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اپنی روزمرہ زندگی سے دور کر دیا ہے۔ گھروں میں قرآن کی تلاوت تو ہوتی ہے، مگر فیصلوں میں قرآن کی روشنی کم دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے بچے قرآن ناظرہ تو پڑھ لیتے ہیں، مگر قرآن کا پیغام، اس کا مقصد، اس کی حکمت اور اس کی روح سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قرآن محض ثواب کے لیے نہیں اترا،یہ زندگی کو بدلنے، کردار کو سنوارنے، اور معاشرے کو مضبوط کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔

اقراء سے مزید