محمد انس پٹیل
اللہ تعالیٰ نے چار موسم بنائے ہیں، سردی، گرمی، خزاں اور بہار، جس طرح کاروبار کے سیزن ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح عبادات کے بھی سیزن ہوتے ہیں، انہی میں سے ایک بہترین عبادت کا سیزن سردیوں کا موسم ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے: الشّتا ءربیع المومن قصر نھارہ فصام و طال لیلہ فقام:سردی کا موسم مومن کے لئے بہار کا موسم ہے، چنانچہ اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھتا ہے اور راتیں طویل ہوتی ہیں تو وہ قیام کرتا ہے۔(مسند احمد)
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ: الشتاء غنیمۃ العابدین: سردی عبادت کرنے والوں کے لئے غنیمت کا موسم ہے۔
سردیوں کا موسم تمام عبادات کے لئے ایک بہترین موسم ہے ، جہاں دن چھوٹے اور ٹھنڈے ہیں تو وہاں روزہ رکھنا ہے آسان اور راتیں لمبی ہیں تو نیند کے ساتھ سہولت اور آسانی کے ساتھ قرآن، ذکر، نوافل اور مناجات کےلئے وقت مل جاتا ہے، بس ذرا سی ہمت اور اہتمام کی ضرورت ہے۔
اسی طرح عبادات کے لئے چونکہ وضوء کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں بھی سردیوں میں دہرا اجر رکھا گیا ہے، چناںچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: من اسبغ الوضوء فی البرد الشدید کان لہ من الاجرکفلان: جس شخص نے سخت سردیوں میں وضو کو اچھی طرح کیا اس کے لئے اجر کے دو حصے ہیں (یعنی دُگنا اجر ہے)۔(صحیح مسلم)
گرمیوں میں جہاں دن ساڑھے تیرہ سے چودہ گھنٹے کے ہوتے ہیں اور ساتھ میں گرم لو اور تپتی ہوئی دھوپ ہوتی ہے، وہی دن سردیوں میں ساڑھے دس گھنٹے تک یخ بستہ ہواؤں کے ساتھ ہوجاتا ہے، جس میں نہایت آسانی کے ساتھ روزہ رکھا جا سکتا ہے، وقت مختصربھی اور ٹھنڈا بھی دونوں چیزیں روزہ کے موافق۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے: الغنیمۃ الباردۃ الصوم فی الشتاء:سردی کے روزے ٹھنڈا مال غنیمت ہے ‘‘(سنن ترمذی) اسی طرح روزے کے متعلق آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
لہٰذا موسم سرما بہترین موسم ہے روزہ رکھنے کے حساب سے، اگر کوئی قضاء روزہ یا واجب روزہ ذمہ ہے تو وہ بھی ان دنوں میں سہولت سے رکھا جا سکتا ہے، اسی طرح نفلی روزوں کا بھی اہتمام ہو۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں آپﷺ روزہ نہ رکھتے ہوں، سردی، گرمی، خزاں، بہار موسم جیسا بھی ہو کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں آپﷺ کم از کم تین روزے نہ رکھتے ہوں اور یہی نصیحت آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کو فرمائی، جب آپ ﷺکو پتا چلا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ مسلسل روزہ رکھتے ہیں، تو آپﷺ نے انہیں منع فرمایا کہ اس طرح مسلسل روزہ مت رکھو ،اور فرمایا کہ تم ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو‘‘۔
اس لئے جہاں ہم نفلی نماز، صدقات و دیگر نفلی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں، وہیں نفلی روزوں کا بھی اہتمام ہونا چاہئے اور یہ سردیوں کا موسم اس کا بہترین موقع ہے جس میں دن چھوٹے اور ٹھنڈے ہوتے ہیں۔
رات کا وقت ہو سرد اور یخ بستہ ہوائیں چل رہی ہوں، ایسے میں کس کا دل نہیں چاہے گا کہ وہ نرم اور گرم بستر میں رات نہ گزارے، لیکن جب ہم اپنے اطراف اور ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہاں تو کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کے لئے چھت ہی میسر نہیں ہے اور وہ فٹ پاتھ، بس اسٹینڈ اور سڑکوں پر کنارے ڈھونڈ کر اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، نرم اور گرم بستر توان کے لئے بہت دور کی بات ہے۔
کھلے آسمان تلے سردی کا کیا عالم ہوتا ہے، وہ میں اورآپ بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے جو صاحبِ حیثیت لوگ ہیں اور جنہیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے، ایسے موقع پر ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سخت سردی کی راتوں میں ان لوگوں کا خاص خیال رکھیں جن کے پاس بدن کو چھپانے کےلئے کپڑے نہیں ہوتے ۔اگر کچھ نیا نہیں دے سکتے تو پرانے ہی کپڑے دے دیں کہ کم از کم وہ اپنا بدن ہی چھپالیں۔
آپﷺ کا ارشاد ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں سبز جوڑے عطا کرے گا، اور جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں پھل اور میوہ کھلائے گا، اور جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے تو اللہ تعالیٰ اسے نہایت نفیس شراب طہور پلائے گا جس پر مہر لگی ہوگی۔(ترمذی۲۳۸۶)
اس لئے ایسے ضرورت مندں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہمارا دینی اور ایمانی فریضہ اور انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے۔ بطورِ خاص سردی کے موسم میں یہ بھی عبادت اور نیکی میں شامل ہے۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطافرمائے ۔(آمین)