• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرا بڑا بھائی بچپن سے ہی معذور ہے، ہم اس کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں، گاؤں کے لوگ ہر جمعرات کو فاتحہ دلاتے ہیں، روٹی سالن معذور بھائی کے لیے ہمارے گھر دے دیتے ہیں، کچھ لوگ فطرہ بھی دیتے ہیں، کیا یہ لینا جائز ہے؟(ذیشان شانی)

جواب: صدقاتِ نافلہ کے لیے نادار ہونا شرط نہیں ہے، ہر جمعرات بطور ایصالِ ثواب کھانا کھلانا مستحسن عمل ہے، البتہ ایام موت میں بطور دعوت دیا جانے والا کھانا اغنیاء کے لیے نا جائز ہے، صرف فقراء کھا سکتے ہیں، اس کے علاوہ فاتحہ، چہلم، برسی، ششماہی کا کھاناجبکہ ایصال ثواب کے لیے ہے تو غنی و فقیر سب کے لیے کھانا جائز ہے، بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائیں۔

امام اہل سنّت امام احمد رضاقادری ؒ  لکھتے ہیں: ’’طعام تین قسم کا ہے: ایک وہ کہ عوام ایامِ موت میں بطور دعوت کرتے ہیں، یہ ناجائز وممنوع ہے، ترجمہ: ’’ اس لیے کہ دعوت کو شریعت نے خوشی میں رکھا ہے، غمی میں نہیں ،جیساکہ فتح القدیر وغیرہ کتبِ اکابر میں ہے ‘‘۔ اغنیاء کو اس کاکھانا جائز نہیں۔ 

دوسرے وہ طعام کہ اپنے اَموات کو ایصالِ ثواب کے لیے بہ نیتِ تصدُّق کیاجاتا ہے، فقراء اس کے لیے اَحقّ ہیں، اغنیاء کو نہ چاہیے ، تیسرے وہ طعام کہ نذورِ اَرواح ِ طیبہ حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء کیاجاتا ہے اور فقراء واغنیاء سب کو بطور تبرک دیاجاتا ہے، یہ سب کو بلا تکلّف رواہے اور ضرور باعثِ برکت ہے۔ برکت والوں کی طرف جوچیز نسبت کی جاتی ہے، اس میں برکت آجاتی ہے، مسلمان اس کھانے کی تعظیم کرتے ہیں اور وہ اس میں مُصِیب ہیں ، (فتاویٰ رضویہ، جلد9،ص:614)‘‘۔

امام اہل سنّت سے مزید سوال ہوا: ’’ اکثر مساجدِ بنگال میں دستور ہے کہ محلہ والے جمعہ کے دن چاول روٹی کھانے کی چیزیں پکاکر فاتحہ کے واسطے اور نمازیوں کو تقسیم کرنے کے لیے مسجدوں میں بھیجا کرتے ہیں، ان اشیائے ِ موصوفہ کو کھانا نمازیوں کے لیے جائز ہے یا نہیں اور ان چیزوں کو مسجد کے اندر تقسیم کرنا چاہیے یا باہر یا بالکل ممانعت کردی جائے ‘‘۔

آپ نے جواب میں لکھا:’’ بھیجنا جائز ہے اور جبکہ بھیجنے والے عام نمازیوں کے لیے بھیجیں، تو اغنیاء کو ناجائز ہے، اور مسجد کے اندر کسی چیز کے کھانے کی غیر معتکف کو اجازت نہیں، بلکہ مسجد سے باہر کھائیں، اسی کی تاکید کی جائے اور بھیجنے سے ممانعت نہ کی جائے ، (فتاویٰ رضویہ ،جلد9،ص:609)‘‘۔

البتہ جواز کے لیے ایک حیلہ اختیار کیا جاتا ہے، جس میں ملکیت بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:’’حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے پاس وہ گوشت لایا گیا جو حضرت بریرہ پر صدقہ کیاگیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اُن پر صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے، (صحیح بخاری :1495)‘‘۔ یعنی مِلک تبدیل ہونے سے حکم بدل جاتا ہے، اس صورت میں مستحق شخص کی اجازت واباحت سے غیر مستحق بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ 

فطرہ کے مصارف وہی ہیں، جو زکوٰۃ کے ہیں ، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، اُنہیں فطرہ بھی دیا جاسکتا ہے، آپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ آپ کے بڑے بھائی کی مِلک میں بقدرنصابِ زکوٰۃ مال ہے یا نہیں ،اگر جواب اثبات میں ہے تو اُن پر زکوٰۃ، فطرہ، نذر وغیرہ صدقات ِ واجبہ کا تصدُّق جائز نہیں ہے، البتہ نفلی صدقات جائز ہیں اور اگر وہ صاحبِ نصاب نہیں ہے تو وہ صدقات ِ واجبہ سمیت ہرطرح کے صدقات کا مستحق ہے اور ان کے ساتھ لوگوں کا تبرُّع اور فضل واحسان کا برتاؤ درست ہے اور قابلِ تحسین ہے کہ وہ معذوری کی بناء پر کمانے کے قابل نہیں ہیں اور اگر کبھی مالِ وراثت میں سے ان کی مِلک میں بقدرِ نصاب مال آگیا توپھر حکم اس کے مطابق ہوگا، جیسا کہ سطورِ بالا میں مذکور ہوا۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

darululoomnaeemia508@gmail.com

اقراء سے مزید