تفہیم المسائل
سوال: میں نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق نامہ بنواکر دیا ہے، جس میں یہ تحریر درج ہے :’’ من مظہر بقائمی ہوش وحواس بلا جبر اقرار کرتا ہوں اور اپنے عقل حواس قائم رکھتے ہوئے مسماۃ فلاں بنت فلاں کو پہلی طلاق دے کر اپنی زوجیت سے خارج کرتا ہوں اور اختیار دیتا ہوں کہ عدّت کے بعد جہاں چاہے نکاح کرلے، آج سے اپنے نفس پر حرام قرار دیتا ہوں ‘‘۔ اس تحریر پر میں نے اور دو گواہوں نے دستخط بھی کردیے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس سے کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟ (ایک سائل، راولپنڈی )
جواب: ’’ من مظہر بقائمی ہوش وحواس بلا جبر اقرار کرتا ہوں اور اپنے عقل حواس قائم رکھتے ہوئے مسماۃ فلاں بنت فلاں کو پہلی طلاق دے کر اپنی زوجیت سے خارج کرتا ہوں اور اختیار دیتاہوں کہ عدّت کے بعد جہاں چاہے نکاح کرلے ،آج سے اپنے نفس پر حرام قرار دیتا ہوں ‘‘۔
اس اقراری بیان میں آپ اپنی بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دینے کا اقرار کررہے ہیں، مقصود صرف اتنی بات سے پورا ہورہا تھا، لیکن آپ یا وثیقہ نویس نے اضافی جملے لکھے ہیں اور ان کے آخر میں ’’آج سے میں آپ کو اپنے نفس پر حرام قرار دیتا ہوں‘‘ لکھا، اس سے دوسری طلاق واقع ہوجائے گی، مجموعی طورپر دوبائن طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، پس آپ کے لیے محض رجوع کافی نہیں ہوگا، بلکہ فریقین باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرسکتے ہیں، تجدیدِ نکاح کے بعد آئندہ آپ کو صرف ایک طلاق کا اختیار حاصل ہوگا، تفصیلی دلائل درج ذیل ہیں: تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’ اور استعمال ہونے والے الفاظ میں: مجھ پر طلاق لازم ہے، اور مجھ پر حرام لازم ہے، اور مجھ پر طلاق ہے، اور مجھ پر حرام ہے، توعرف یہ ہے کہ نیت کے بغیر واقع ہو جائے گی‘‘۔
اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس یہ (طلاق میں) صریح ہے نہ کہ کنایہ ‘‘، آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ اور یہ ہمارے زمانے کے عرف میں اسی طرح ہے، لہٰذا اس کا صریح طور پر اعتبار کرنا ضروری ہے جیسا کہ متاخرین علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ ’’تم مجھ پر حرام ہو‘‘ یہ بغیر نیت کے طلاق بائن ہے، (حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد9،ص:169)‘‘۔’’تو مجھ پر حرام ہے‘‘، اس مسئلے پر علامہ ابن عابدین شامی نے ایک دوسرے مقام پر طویل بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے :’’ مُتقدمین نے کہا: یہ طلاق کے معنی میں صریح ہے اورنیت کی حاجت نہیں ہے، جاہل لوگ جب یہ لفظ بولتے ہیں، تو وہ اس سے طلاق ہی مراد لیتے ہیں اور انہیں طلاقِ رجعی اور بائن کے درمیان معنوی فرق کا شعور ہی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ بلانیت ’’طلاق رجعی‘‘ کے معنیٰ میں ہے۔
پھرعلامہ شامی لکھتے ہیں: کافی عرصہ غور وفکر کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات آشکار ہوئی کہ طلاق کے ضمن میں لفظ ’’حرام‘‘ کے معنی ہیں: ’’وطی اور محرِّکاتِ وطی (شہوت سے بوس وکنار وغیرہ) حلال نہیں رہے اور (عدّت کے اندر) وطی طلاق رجعی سے حرام نہیں ہوتی ،طلاق بائن سے ہوتی ہے۔
پس شوہر کا اپنی بیوی کو کہنا: ’’تو مجھ پر حرام ہے‘‘، اس سے طلاقِ بائن رجعی واقع ہوگی، یعنی یہ ایک جہت سے رجعی ہے کہ اس کے لیے نیت معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ نیت کا اعتبار ہی نہیں کیا جائے گا اور ایک جہت سے بائن ہے کہ اس سے وطی اور مُحرکاتِ وطی حرام ہوجاتے ہیں، (حاشیہ ابن عابدین ، جلد9،ص:316، ملخصاً مع التشریح )‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر آپ کی سابق اہلیہ آپ کے ساتھ رہنے کے لیے راضی ہوں، تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کریں، تجدیدِ نکاح کے بعد آئندہ آپ کو صرف ایک طلاق کا اختیار حاصل ہوگا۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
darululoomnaeemia508@gmail.com