ڈاکٹر نعمان نعیم
اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارگی کا ضامن ہے۔ قرآن کریم میں ہے:’’جنہوں نے اپنے دین میں الگ الگ راستے نکالے اور کئی گروہ ہوگئے، یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں،ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے‘‘۔(سورۃ الانعام،آیت 159)
اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرمﷺ کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سرو کار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔جامع ترمذی میں روایت ہے، حضور نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہو گا ،وہ دوزخ میں جا گرے گا‘‘۔
اس کے علاوہ ملی شیرازے کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لئے حضور اکرم ﷺ نے انتہائی سخت احکام صادر فرمائے ہیں۔ صحیح مسلم میں روایت ہے،اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے، باس طور پر کہ عصبیت کی وجہ سے غصے کا اظہار کرے، یا عصبیت کی طرف لوگوں کو بلائے یا قومیت کی بنیاد پر کسی کی مدد کرے پھر وہ مارا جائے، تو اس کی موت جاہلیت کی مو ت ہوگی اور جو میری امت کے خلاف تلوار اٹھائے، ن یک اور بد، ہر ایک کو قتل کرے،اس کا نہ مجھ سے (یعنی میر ی جماعت سے)کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘۔
سنن ابو داؤد میں روایت ہے ،رسول اکرمﷺ نے جاہلی عصبیت وانانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’جس نے عصبیت کی دعوت دی، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت کے باعث قتال کیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو عصبیت میں مبتلا ہوکر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
سنن ابو داؤد میں عصبیت کی حقیقت کے حوالے سے روایت موجود ہے، رسول اللہﷺ سے عرض کیا گیا کہ عصبیت کیا ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :’’ عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرو ‘ ‘۔مسند احمد میں روایت ہے ،ایک مرتبہ آپ ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کیا عصبیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم اور جماعت کو عزیز رکھے؟
آپ ﷺنے فرمایا، نہیں!بلکہ عصبیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملے میں اپنی قوم وجماعت کی (اندھی)حمایت کرے۔ آپ ﷺ نے اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے قومیت، لسانیت اور علاقائیت کے نعروں کا خاتمہ فرمایا اور بتایا کہ اسلامی معاشرہ امن وسکون کا معاشرہ ہے، جو محبت،اْخوت اور ہم دردی کا درس دیتا ہے، جہاں اختلاف رائے کے بھی اصول و آداب ہیں جو مسلمانوں کو رواداری، درگزر ،تحمل و برداشت اور امن و سلامتی کا درس دیتے ہیں۔
لیکن آج ہم مسلمانوں نے اس سبق کو یکسر بھلادیا ہے ،باہم شیر وشکر ہونے کے بجائے آپس میں دست و گریباںنظر آتے ہیں۔ قومی و لسانی تعصبات ،فرقہ وارانہ اختلافات، تنگ نظری، شدت پسندی، مذہبی منافرت یہ تمام اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔
صحیح مسلم میں رسول اکرمﷺ کاارشاد گرامی ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے اور تین چیزیں ناپسند فرماتا ہے۔ جن کو پسند کیا۔ وہ یہ ہیں : ۱) اللہ چاہتا ہے تم سب اس کی عبادت کیا کرو۔ ۲) اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ۳) اللہ کی رسی کو اجتماعیت کے ساتھ تھام لو اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں نہ بٹو۔
تین چیزیں جو اللہ کو ناپسند ہیں، وہ یہ ہیں : ۱)قیل وقال کرنا، بحث و تمحیص کرنا، تکرا رکرنا چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑا کرنا جس سے اختلافات بڑھتے اور معاشرے میں پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رویے کوسخت ناپسند کرتا ہے…۲) اور زیادہ سوال کرنے کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔ ۳)اور مال کو بے جا ضائع کرنا اللہ ناپسند کرتا ہے۔
موجودہ دور میں امت مسلمہ کو سب سے خطرناک مرض جو لاحق ہوا ہے وہ ہے اختلاف اور مخالفت۔ ذوق ، رجحان، کردار، اخلاق یہاں تک کہ معتقدات و نظریات ، افکار و آراء، اسالیب فقہ، عبادات، ہر شے اور ہر معاملے میں اختلاف! حالانکہ اسلام نے توحید کے بعد باہمی اختلافات سے اجتناب ، تعلقات کو مکدر اور اخوت اسلامیہ کو مجروح کرنے والی ہر چیز کے سدباب اور امت مسلمہ کے اتحاد پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔
دین ودنیا کے ہرمعاملے میں اختلاف ایک ناگزیر امر ہے،جو ہر دور میں ہوتا آیاہے اورقیامت تک ہوتا رہے گا،غورکیاجائے تویہ بھی اللہ کی قدرت کا حسین مظہراور انسانی فطرت کا شاہ کارہے ،خودباری تعالیٰ کاارشاد ہے :اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی)ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی،بے شک، اس میں اہلِ علم و تحقیق کے لئے عبرت کا سامان ہے۔(سورۃ الروم)
فطری طور پرہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتاہے ،مزاج میں ،فکر و تخیل میں، اطوار وعادات میں،شعور واحساس میں،یہی وجہ ہے کہ ایک باخبرانسان دوسرے انسان کے بنائے ہوئے ذہنی سانچے میں ڈھلنے کے لیے جلد تیار نہیں ہوتا ،وہ اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے، اپنے دماغ سے سوچتا ،اپنے دل سے سمجھتا ہے پھر حال و استقبال ،انجام وعواقب کو پیش نظر رکھ کر نظریہ قائم کرتاہے ،اسی لیے اختلاف کو زندہ قوموں کی علامت بتایا جاتاہے،مگراختلاف کے ساتھ وسعت ظرفی،تحمل وبرداشت اور احترام انسانیت بھی نہایت ضروری ہے۔
ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف پسندیدہ اور قابل قبول ہوسکتاہے ، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو، وہ اختلاف یقیناً قابل مذمت ہے ۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب کبھی امت میں فکر ونظر کاشدید اختلاف پیدا ہوا،امت اصل مقاصد پر توجہ دینے کے قابل نہیں رہی،اس کی اجتماعیت منتشر ہوگئی، اس کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ،اس کا وجود خطرے میں پڑگیا،دشمنوں کے دلوں سے اس کا رعب کم ہوگیا اور وہ اغیار کا آلۂ کار بن گئی۔
صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمۂ مجتہدین کے دور کی وہ تاریخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ما تحت جو ان میں اختلاف رائے پیش آیا، اس پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اس نے جنگ و جدال کی صورت اختیار کی ہو، باہمی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا اور تمام برادرانہ تعلقات قائم رہنا اس پوری تاریخ کا اعلیٰ شاہ کار ہے ۔اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اختلاف قرآن وسنت کی بنیاد پراخلاص و للّٰہیت کے ساتھ ہو اور اختلاف کرنے والوں میں وہ اہلیت بھی موجود ہو جو اس کے لئے ضروری ہے ، تو یہ اختلاف ممنوع نہیں، بلکہ امت کے لئے رحمت ہے۔
اختلاف ایسے مسائل میں ہو، جن میں قرآن و سنت نے کوئی دو ٹوک فیصلہ نہ کیا ہو، ایسے مسائل جن میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے ، یعنی ایک سے زیادہ آراء کا احتمال ہوتا ہے، ان میں جو فریق بھی جو رائے دلائل کی بنیاد پر قائم کر لے ،وہ ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔دلائل کی روشنی میں اپنی جو بات بھی راجح ہو ،اسے صواب، محتمل خطا اور فریق مخالف کی رائے کو خطا، محتمل صواب سمجھاجائے ،اس سے اختلاف اپنے دائرے میں رہے گا اور منافرت کی نوبت نہیںآئے گی، ورنہ اپنی رائے پر اصرار تفرقہ اور انتشارکا سبب ہوسکتا ہے۔
اختلاف رائے کے حوالے سے یہ اصول بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ اختلاف کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو، اس میں سنجیدگی، متانت اور وقار کے دامن سے وابستہ رہنا ضروری ہے۔ لڑائی، جھگڑا، گالم گلوج اور طعنہ زنی سے بچنا لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور لوگوں سے بہتر طریقے سے گفتگو کرو‘‘۔ (سورۂ نحل: ۱۲۵)
اس لیے کہ مقصد حق کی تفہیم اور تبلیغ ہے، جس کے لیے نرم خوئی اور دل سوزی، شفقت اور ہمدردی، خوبصورت انداز بیان اور مشفقانہ لب ولہجہ مطلوب اور مفید ہے۔ سختی و تلخی، بداخلاقی اس راہ میں نہایت مضر اور بے نتیجہ ہے۔ اللہ عزوجل نے فرعون جیسے سرکش اور گمراہ کے پاس حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ جیسے پیغمبر اور مصلح کو بھیجتے ہوئے حکم دیا:’’تم دونوں اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرو، ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرلے‘‘۔(سورہ ٔطٰہٰ:۴۴)
اجتہادی مسائل اور فقہی و علمی اختلاف میں یہ طریقہ ہونا چاہیے کہ اپنے مسلک کو چھوڑا نہ جائے اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑا نہ جائے، نہ چھیڑنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ علمی تنقید نہ کی جائے، بلکہ علمی تنقید کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے، البتہ اسے لڑائی ، جھگڑا اور دلوں میں دوری کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ کشادہ دلی کے ساتھ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرناچاہیے، نیز کسی کو اپنے خیال اور رائے کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔
یہ ایک بے جا اور غیرفطری خواہش ہے کہ تمام لوگ کسی ایک رائے پر جمع ہوجائیں، اپنے مسلک و مذہب کو دلائل کےساتھ بیان کرنے میں اور اسے راجح قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کی طر ف دعوت دینا غلط ہے۔ اس لیے کہ دعوت دین کی طرف ہونی چاہیے ،نہ کہ مسلک ومذہب کی طرف۔
حضرت یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ اہل فتویٰ کے درمیان ہمیشہ بعض چیزوں کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف رہا ہے، لیکن حلال یا حرام قرار دینے والوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے متعلق یہ خیال نہیں کرتا کہ جسے وہ حلال یا حرام سمجھ رہا ہے ،دوسرا اس کے برخلاف سمجھنے کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔(جامع بیان العلم ۲؍۸۸)امام شافعی ؒفرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی علمی وفقہی مسئلے میں مجھ سے اختلاف رکھتا ہے ،میں اس سے یہ نہیں کہتا کہ وہ اللہ سے توبہ کرے ،کیونکہ توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور ایسا آدمی گنہگار نہیں ہوتا ، بلکہ ایک یا دو ثواب کا حقدار ہوتا ہے‘‘۔(اختلاف رائے آداب واحکام ، ڈاکٹر سلمان فہدعودہ؍۱۰۳)
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت کی تعلیم دیتا ہے، بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ قرآن مجید اور تعلیمات ِ نبویؐ سے یہ امر ثابت ہے کہ ملت کا اتحاد و اتفاق اس کے استحکام کی ضمانت ہے۔خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی حیات ِ طیبہ میں فرمان الٰہی ’’انّمَاالمُؤمِنُونَ اخُوَۃُ‘‘کی روشنی میں امت کو متحد رکھا اور ہمیشہ مسلمانوں کو باہم متحد و متفق رہنے کی عظیم تعلیمات عطا کیں،جن پرعمل کرکے یہ امت فرقہ واریت سے نجات پاسکتی ہے۔
ارشادِ نبوی ہے:۔’’مومن ،مومن کےلیے دیوار کی مانند ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوطی دیتا ہے‘‘۔’’مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔قرآن و سنت کی یہ تعلیمات اختلافِ رائے اور فقہی و مسلکی اختلافات کے حوالے سے رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔