یاسین ملک بھی مجرم قرار

May 22, 2022

تحریر:خواجہ محمد سلیمان..... برمنگھم
لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو یاسین ملک کو انڈیا کی حکومت نے بے بنیاد دہشت گردی کے الزامات میں فروری 2019میں گرفتا ر کیا تھا اب تین سال قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد ان پر ایک عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ہے اور اس نام نہاد عدالت نے سارے انصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر بھارتی حکومت کی ایما پر ان کو مجرم قرار دیا ہے، اب ان کو سزا ملنی ہے، یاسین ملک نے اس سارے عدالتی نظام پر اپنے تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مقدمے کی پیروی ہی نہیں کی کیونکہ ان کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ انڈیا کی عدالتوں سے آج تک کسی بھی کشمیری لیڈر کو انصاف نہیں ملا،اس لئے وہ اس سارے نظام کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہتے ہیں، انڈیا عالمی سطح پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے اور وہاں پر آئین اور قانون کی پاسداری ہے لیکن نریندر مودی نے انڈیا کو دنیا کے سامنے برہنہ کردیا ہے کہ اس کی جمہوریت سب سے بڑا فراڈ ہے، ملک میں الیکشن کرانے کا نام جمہوریت نہیں ہے جمہوریت اصل میں ایسی سوچ و فکر کا نام ہے جس میں انسان ہر فرد کو برابری کے حقوق دیتاہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں، انڈیا نے ریاست جموں وکشمیر کے بہت بڑے حصہ پر 1947سے جبری قبضہ کیا ہوا ہے اور انڈیا کے ہر لیڈر نے اپنی عوام اور عالمی دنیا کے سامنے اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا ہے کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے حالانکہ تاریخ یہ بتا رہی ہے کہ کشمیر پر بھارت نے دھوکہ دہی سے قبضہ کیا اور ہر دور میں نئے نئے جھوٹوں کا سہارا لیا، اس لئے انڈیا کی پارلیمنٹ یا عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھنا احمقوں کے جنت مں رہنے کے مترادف ہے، یاسین ملک اور تمام کشمیری لیڈر شپ کی یہی رائے ہے کہ کشمیریوں کی اپنی قربانیوں سے کشمیر کی آزادی ممکن ہے اور وہ اس راستے میں جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں،ے شک اس وقت عالمی ضمیر مردہ پڑا ہے، اس پر مفادات غالب ہیں لیکن تاریخ یہ سبق دے رہی ہے کہ آخری فتح سچ کی ہوتی ہے اور ہر ظالم کا انجام برا ہوتا ہے، اس وقت انڈیا نے اپنا آخری حربہ استعمال کیا ہے، وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لئے وہاں کی آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کر رہا ہے اس نے مقبوضہ علاقوں کو تقسیم شروع کر رکھی، اس کی منشا یہ ہے کہ اس طرح کشمیری اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے لیکن اسے معلوم ہونا چاہئے کہ تاریخ کبھی مٹ نہیں سکتی، ریاست جموں وکشمیر کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ ہے،یاسین ملک نے ہمیشہ انڈیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس مسئلہ کا حل بات چیت ہے، ظلم وجبر سے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ختم کرنے کے سارے حربے ناکام ہوں گے لیکن بھارتی نیتا طاقت کے بل بوتے پر اس مسئلہ کوحل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیری لیڈروں کوختم کرکے کشمیریوں کو ہمیشہ غلام بنالیں لیکن ایسا ممکن نہیں، مقبول بٹ کو شہید کیا گیا تو ہزاروں اور کشمیری نوجوان مقبول بٹ کے راستے پر نکل پڑے جس کشمیر میں مقبول بٹ، سید علی گیلانی، اشرف صحرائی، شبیر شاہ، مسرت عالم، یاسین ملک جیسے بے لوث ر ہنما پیدا ہو سکتے ہیں ،اس کشمیر کی مٹی بڑی ذرخیز ہے، وہاں رہنمائوں کی کمی نہیں ہے، بھارت کی یہ بھول ہے کہ وہ کشمیری قیادت کو ختم کرکے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ختم کر سکتا ہے، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کا کیس عالمی سطح پر اٹھایا جائے، یہ کام حکومت پاکستان کا ہے وہ کشمیریوں کا عالمی سطح پر وکیل ہے اگر پاکستان کسی مجبوری کی وجہ سے یہ کام نہیں کرسکتا تو آزاد کشمیر حکومت کو یہ کام کرنا چاہئے، برطانیہ کے اندر اس سلسلہ کشمیریوں نے ایک موومنٹ چلائی ہو ئی ہے، بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرے ہورہے ہیں، اس طرح یورپین ممالک اور امریکہ میں بھی ہورہا ہے، حال ہی میں جب نریندر مودی یورپ کے دورے پر آیا تو اس کے خلاف احتجا ج ہو ا،اس کام کو متحد ہو کر مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے، کشمیری جب تک اپنے اندر اتحاد پید ا نہیں کریں گے تب تک آزادی کی منزل قریب نہیں آئے گی۔