اپنا کردار بھی نبھائیے!

May 23, 2022

رابطہ…مریم فیصل
یہ پڑھنے میں کتنا عجیب لگتا ہے کہ بین الاقوامی فنڈ بڑی مملکتوں کو یہ کہے کہ اپنے اپنے ملک میں مہنگائی کم کرنے کے لئے اشیائے ضرورت کو سبسیڈائز کرنے کے بارے میں سوچیں اور یہ عجیب اس لئے لگ رہا ہے کیونکہ بڑی ریاستوں کے ملکی بجٹ بھی بڑے ہی ہوتے ہیں، جن میں قدرتی یا جنگی مسائل سے نمٹنے کے لئے پیسے مختص کئے جاتے ہیں، اس لیے ان ممالک کو یہ پریشانی نہیں ہوتی کہ کسی بھی آفت کی صورت میں پیسے کہاں سے آئیں گے،لیکن یہ کورونا ایسی آفت لگ رہی ہے جس نے بڑی بڑی ریاستوں کو بھی ناکوں چنے چبوادیئے ہیں اور ان ممالک کے عوام بڑھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے مہنگائی کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں ،اگر صرف برطانیہ کی ہی بات کریں تو یہاں افراط زربلند ترین سطح پر پہنچ کر گیس، بجلی ،پانی کے ساتھ روٹی، دال، چاول، دودھ جیسی اہم ضروریات کو بھی عوام کی پہنچ سے دور کر رہا ہے اور چونکہ ابھی برطانوی حکومت کے پاس کوئی جامع منصوبہ بھی نہیں ہے جومہنگائی سے نمٹنے میں عوام کو مالی معاونت فراہم کرے ،سوائے تسلیاں دینے کے، اس لئے ایسا لگ رہا ہے کہ انٹرنیشنل ادارے یہ سب صورتحال دیکھ کر ہی ان بڑی ریاستوں کویہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اشیائے ضرورت پر حکومتی سبسڈی اب ضروری ہوگئی ہے ، ساتھ ہی ان اداروں نے ایک اہم منصوبہ بھی لانچ کیا ہے تاکہ پوری دنیا میں کھانے کی قلت کو کم کیا جاسکے ۔ یہ وہ ساری باتیں اور منصوبے ہیں جو ہم دیکھ سن رہے ہیں کہ حکومتیں پریشان ہیں کہ کیسے مہنگائی کو کم کریں اور ادارے بھی اس پر غور کرنے کے ساتھ کچھ منصوبے بنا رہے ہیں لیکن یہ مہنگائی کیونکہ بھگت عوام رہے ہیں تو یہ اپنا خود کا فرض بن گیاہے کہ اپنا کردار بھی ادا کیا جائے،کیونکہ ایسا کرنے سے فائدہ اپنے ہی گھر کو پہنچے گا ۔ اب پڑھنے والے یہ کہیں گے کہ ہم کیا کریں، کیا کھانا پینا چھوڑ دیں ۔ نہیں بالکل نہیں، کرنا صرف اتنا ہے کہ اپنا جو گھریلو بجٹ ہے،اس پر نظر ثانی کرنی ہے، سب سے پہلے ان ضروریا ت کو اوپر رکھنا ہے جن کے بنا گزارا نہیں، جیسے یوٹیلیٹی بلز اور ان پر کنٹرول کرنا ہے، وہ کیسے، وہ ایسے کہ برطانیہ میں موسم کچھ تبدیل ہو گیا ہے اور ہیٹرآن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس وقت تھرمواسٹیٹ کو کم رکھنے سے انرجی بل پر بہت فرق پڑے گا اور دن بھی بڑے ہیں، اس لئے تمام دن لائٹس آن کرنے کی بھی ضرورت نہیں، اگر کمرے کے پردے ہی ہٹا دیں تو یہی بہت کافی ہوگا ۔ اسی طرح کھانے پکانے میں بھی احتیاط کی جاسکتی ہے کہ ضرورت کے وقت چولہے استعمال کئے جائیں اور اس بات پر دھیان دیا جائے کہ غیر ضروری گیس استعمال نہیں ہو رہی۔اب پیٹرول کی بات کر لیتے ہیں جو سونے کے بھاؤ مل رہا ہے، اس کیلئے جہاں تک ہوسکے پیدل یا سائیکل کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور صرف طویل فاصلوں کے لئے ہی گاڑی کا ستعمال کیاجائے تو اس سے پیٹرول کا استعمال بھی کم ہوگا اور مہنگا پیٹرول بھی نہیں خریدنا پڑے گا ۔یہ بہت ہی چھوٹے چھوٹے کام ہیں جو ہم خود اپنی زندگی میں اختیار کر کے فی الحال اس بڑھتی مہنگائی سے نمٹ سکتے ہیں، باقی یہ امید تو ابھی باقی ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں صورتحال بہتر ہو جائے گی اور مہنگائی کا زور بھی کورونا کی طرح ٹوٹ ہی جائے گا ۔