ثبوت

May 25, 2022

دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں‘ ان کی شکلیں اور آوازیں ہی نہیں، انگلیوں کے نشان بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔مجرم اکثر ہتھیار‘ دروازے کے ہینڈل اور گاڑی کے اسٹیرنگ پر اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بیسویں صدی کے اوائل میں پہلی دفعہ فنگر پرنٹس کو بطور ثبوت استعمال کرتے ہوئے مجرموں کو سزا دینے کا عمل شروع ہوا۔ ماہر مجرم اسی لیے دستانے استعمال کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ریکارڈنگ صرف انگلیوں کے نشانات کی نہیں ہو رہی۔ آواز بھی ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ رحمٰن ملک نے شریف خاندان کی ایک جج سے خفیہ بات چیت ٹی وی پر چلا دی تھی۔ یہ آواز بطور ثبوت عدالتوں میں پیش کی جاتی ہے کہ اس شخص نے فلاں وقت پر فلاں جرم کا اعتراف کیا۔ موبائل فون میں موصول ہونے والی آخری فون کالز کی مدد سے قاتل کا سراغ لگا لیاجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آوازیں ختم نہیں ہو رہیں بلکہ ایک مستقل ریکارڈ کا حصہ بن رہی ہیں۔بہت سے لوگ بلیک میلنگ کے لیے ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا۔ انسان نے سلیکان جیسے عناصر استعمال کرتے ہوئے کیمرہ ایجاد کیا۔ تصاویر ثبوت بننے لگیں۔ پھر وڈیو کا زمانہ شروع ہوا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے مجرم پکڑے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی منظر نامے پر بھی مبینہ طور پر خفیہ وڈیوز کا ذکر چلتا رہتا ہے۔ موبائل فون میں کیمرہ نصب ہو نے کے بعد دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی۔ پہلے وڈیو بنانے والے کیمروں کی قیمتیں نہ صرف لاکھوں میں تھیں بلکہ مہارت بھی درکار تھی۔آہستہ آہستہ یہ کیمرے سستے ہونا شروع ہوئے۔ان کا استعمال بھی آسان ہوتا چلا گیا۔دنیا بھر میں لاکھوں آئی ٹی ماہرین انہیں آسان سے آسان تر بنانے میں جتے ہوئے تھے۔ پھر کیمرے والے موبائل فون بننا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ یہ ٹیکنالوجی سستی ہوتی چلی گئی۔اس کے ساتھ ہی دنیا میں سارے پردے اٹھتے چلے گئے۔آج کروڑوں افراد ہاتھ میں کیمرے والے موبائل فون اٹھائے رپورٹر بنے پھر رہے ہیں۔ پرائیویسی ختم ہوچکی ہے۔ ہر شخص بہت کچھ ریکارڈ کر کے دنیا کو دکھانا چاہتا ہے۔

آج جب آپ کا موبائل فون گم یا چوری ہوتاہے تو آپ کے ذہن میں سب سے پہلا خیال کیا آتا ہے؟ آپ سب سے پہلے سوچتے ہیں: ڈیٹا کا کیا ہوگا؟ تصاویر‘ وڈیوز‘ موبائل فون نمبرز۔ ہم نے موبائلز پہ پاسورڈ لگانا شروع کیے۔ آج لوگوں کے نمبر اور دوسرا ڈیٹا موبائل فون میں نہیں بلکہ ای میل اکائونٹس میں محفوظ ہو رہا ہے۔ نئے موبائل میں آپ اپنا اکائونٹ درج کریں اور ساتھ ہی سارا ڈیٹا نئے فون میں آجاتا ہے۔ اب چوری شدہ موبائل کا سارا ڈیٹا انٹر نیٹ سے ڈیلیٹ کیاجا سکتاہے۔ اس کے باوجود بے شمارمشہور شخصیات کی خفیہ وڈیوز سامنے آرہی ہیں۔ ڈیٹا کس طرح دنیا کے سامنے آتا ہے؟ ایڈورڈ اسنوڈن کی مثال لیں۔ وہ امریکی خفیہ ایجنسی میں کام کر رہا تھا۔دنیا کو اس نے بتا دیا کہ عالمی رہنمائوں سمیت امریکہ اہم لوگوں کا ڈیٹا چوری کر رہا ہے۔ اہم ترین معلومات‘ دنیا کے طاقتور ممالک جنہیں کسی صورت منظرِ عام پر آنے نہیں دینا چاہتے تھے‘ وہ وکی لیکس میں سامنے آگئیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں کمپیوٹرز انٹرنیٹ کی تار کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر بہت سی اہم خفیہ معلومات دنیا کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ بڑے بڑے کمپیوٹرز ہیک ہو جاتے ہیں۔ معلومات چرا لی جاتی ہیں۔ آج مغرب میں جو چیز سب سے زیادہ نرخ پہ فروخت ہو رہی ہے‘ وہ ڈیٹا ہے۔ دنیا بھر میں بڑے بڑے کال سینٹرز اسی ڈیٹا کی بنیاد پر کروڑوں اربوں روپے کما رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں انسانوں کے فنگر پرنٹس، ان کی آوازیں اور شکلیں مختلف کیوں ہیں؟ یہ فنگر پرنٹس ایک جیسے کیوں نہیں بلکہ فنگر پرنٹس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ذرا سا آپ گہرائی میں اتریں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی نے بڑے اہتمام سے ہر شخص کے منفرد (Unique) فنگر پرنٹس تخلیق کیے۔ ’’ کیا انسان یہ گمان کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کر سکیں گے۔ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے نشان دوبارہ ٹھیک کر دیں‘‘سورۃ القیامہ آیت 3‘4۔زمین کے اندر سلیکان اور کاپر جیسے عناصر نہ ہوتے تو انسان کبھی اس قابل نہ ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کی وڈیو اورآواز ریکارڈ کر سکے اور دوسروں کو بطور ثبوت دکھا سکے۔پلک جھپکنے میں دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انہیں بھیج سکے۔ جس ہستی نے یہ عناصر رکھے ہیں‘ اس نے آپ کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ ثبوت اکٹھے ہو رہے ہیں۔

دنیا میں ایسے کیمرے موجود ہیں‘ جو بہت دور تک زوم کر سکتے ہیں۔ ان کی مدد سے لوگ ایک دوسرے کی وڈیوز بہت دور سے ریکارڈ کر لیتے ہیں‘ جہاں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ کئی کلو میٹر دور بیٹھے لوگ اسی زوم سے ایک دوسرے کی وڈیوبنا لیتے ہیں۔ سیٹلائٹس میں جو کیمرے نصب ہیں‘ وہ آپ کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے لوگوں کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں؛حالانکہ وہ کس قدر بلندی پر کرّہ ء ارض کے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ سلیکان اور کاپر جیسے عناصر کو مٹی کے نیچے رکھنے کا مقصد کیا تھا؟ کوئی ذات انسان کو دکھانا چاہتی تھی کہ ریکارڈنگ اور زوم کیا ہوتاہے۔ خدا کے ہاں یقیناً آوازاور چہروں کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے لیکن کاپر اور سلیکان کی مدد سے نہیں بلکہ انوکھے برتر عناصر سے۔نجانے اس کے پاس کون کون سے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ریکارڈنگ تو خیر ہمارے اندر بھی ہو رہی ہے۔ہر آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، وہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور ایک دن پیش کر دیا جائے گا۔