کرہِ ارض کی خاص ترتیب کیلئے حیاتیاتی تنوع انتہائی ناگزیر

June 12, 2022

کرہ ارض پر انسانوں کے علاوہ کئی دیگر جاندار بھی رہتے ہیں،جن کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کو ایک خاص ترتیب میں رکھنے کے لیے حیاتیاتی تنوع انتہائی ناگزیر ہے۔ ایک سائنسی نظریہ کہتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کےخاتمے سے کرہ ارض تباہ بھی ہوسکتا ہے۔ حیاتیاتی تنوع کو اکثر پودوں، جانوروں اور مائکرواورگینزمز کی وسیع اقسام کے لحاظ سے سمجھا جاتا ہے، لیکن اس میں ہر ایک نوع (Species) کے اندر جینیاتی فرق بھی شامل ہوتا ہے۔

حیاتیاتی تنوع کے وسائل ایسے ستون ہیں، جن پر ہماری تہذیت و تمدن کی عمارت قائم ہے۔ انسانی غذا کا 80فیصد پودوں/درختوں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ مچھلی تقریباً 3 ارب لوگوں کو 20 فیصد حیوانی پروٹین فراہم کرتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی دیہی آبادی بنیادی صحت کے لیے عموماً پودوں اور جڑی بوٹیوں سے اخذ کردہ ادویات پر انحصار کرتی ہے۔ حیاتیاتی تنوع پوری دنیا کے ساتھ ساتھ مختلف خطوں میں بھی بہت مختلف ہوتی ہے۔ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ جانداروں کا تنوع، درجہ حرارت، بارش، ڈھلوان سطح، مٹی، جغرافیہ اور دیگر کئی انواع کی موجودگی پر منحصر ہوتا ہے۔

زمینی حیاتیاتی تنوع کو سمندری حیاتیاتی تنوع سے 25فی صد زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ جنگلات کسی بھی خطے کی حیاتیاتی تنوع کی بقاء کا ضامن اور تقریباً 40 سے 70 فی صد حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے کا ذریعہ ہیں۔ تحقیقی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کرئہ ارض پر انواع کی تعداد تقریباً 87لاکھ ہے، جس میں سے 21لاکھ کی موجودگی کے شواہد سمندروں میں ملتے ہیں۔

جنگلات 80فی صد مائیکرو آرگینزم کا مسکن ہیں جبکہ 75فی صد پرندے اور 68فی صد ممالیہ (mammals) جنگلات کے مستقل مکین ہیں۔ تقریباً 60 فی صد ویسکولر پودے (Amphibian) جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔ اسی کے علاوہ، ٹروپیکل اور دیگر مچھلیوں کی متعدد اقسام کی اہم افزائش گاہیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مینگرووز کے لیے بھی بڑے معاون ثابت ہوتے ہیں۔

حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات کا اثر براہ راست انسانی صحت پر پڑتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ حیاتیاتی تنوع میں تنزلی سے حیوانی امراض (جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی امراض) میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے۔ کووڈ-19نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ غیر معمولی کھانے پینے کی عادتوںاور قدرت وسائل کے ناسمجھی سے استعمال کے سبب انسانی زندگی کے لیے ضروری نظام کی تباہی ہوتی ہے۔ حالانکہ کووڈ-19نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ قدرت یا فطرت ابھی بھی محفوظ، درست اور مسلسل استعمال کے لائق بن سکتی ہے۔

یہ پائیدار اہم سرگرمیوں کی بنیادی ضروریات کو وسائل مہیا کرتی ہے۔ ماحولیاتی نظام پیچیدہ ، متنوع ڈھانچے اور افعال کے حصول کی وجہ یہ ہے کہ جنگلی نسلیں زندہ ، ارتقاء ، متنوع اور نئی جینیاتی خصوصیات حاصل کرتی ہیں۔ پودوں اور جانوروں کی انواع جن کے جنگلی رشتے دار فطرت میں پائے جاتے ہیں وہ زرعی پیداوار کی اساس ہیں۔ ایسے علاقوں اور آبی وسائل جن کی زمین پر زرعی صلاحیت موجود ہے وہ تیزی سے آلودہ اور کم ہورہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، عالمی ادارۂ خوراک و زراعت (FAO) کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انسانی خوراک پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرنے والے پودے، جانور، مکّھیاں اور کیڑے مکوڑے زوال کا شکار ہیں۔ اگر پودوں، جانوروں اور ننھی حیات کی ایسی اہم اقسام ختم ہو جاتی ہیں، تو اس سے ہماری خوراک کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق زمین کا بدلتا ہوا استعمال، آلودگی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع میں اس کمی کی وجوہات ہیں۔

اعلیٰ پیداوار دینے والے ممالک نئی افزائش نسل اور بیج کی کاشتکاری کی اقسام کی ترقی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ خوراک کے بحران سے بچا جاسکے۔ اس تناظر میں ، جینیاتی وسائل کے لحاظ سے ممالک کا حیاتیاتی تنوع ایک اہم قوت تشکیل دے گا۔ تاہم، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ دنیا میں مختلف پودوں اور جانوروں کو بچانے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے، لیکن یہ پودے، جانور اور کیڑے مکوڑے اتنی تیزی سے پیدا نہیں ہو رہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔

قدرتی اور بشریاتی عمل کی وجہ سے جانوروں اور پودوں کی نایاب اقسام، ان کا قدرتی ماحول اور جغرافیائی محل وقوع شدید خطرے میں ہے۔ اگر یہ جاندار ختم ہو گئے تو کرہ ارض کا نظام بھی شدید طور پر متاثر ہو گا۔ دنیا میں تیزی سے برپا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں زمین پر رہنے والی کئی نادر و نایاب انواع کے مکمل ناپید ہونے کا موجب بن رہی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 2050ء تک اس کرہ ارض پر پائے جانے والے کُل جانداروں کی 30فیصد اقسام ناپید ہو جائیں گی۔ اگر موجودہ صورت اس طرح ہی برقرار رہے تو کئی انمول انواع اپنی شناخت اور دریافت کے بغیر ہی معدوم ہوجائے گی اور ایک نامکمل ارتقائی عمل کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو کہ کسی بھی نوع تک مکمل رسائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگا۔

2015ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق زندگی کی باقیات مغربی آسٹریلیا میں 4.1ارب سال پرانے پتھروں میں پائی گئیں۔ ایک تاریخی تحقیق کے مطابق اگر زندگی نسبتاً جلد پیدا ہوجاتی تو یہ کائنات میں بہت جلد عام ہوسکتی تھی۔ زمین پر زندگی کی ابتدا کے ساتھ ہی پانچ بڑے پیمانے معدوم ہونے اور کئی معمولی واقعات کی نمودار ہونے کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع میں بڑی اور اچانک کمی ہوتی ہے۔

زمین پر انواع کی معدومیت کی اہم وجہ انسانی طاقت کی قدرتی نظام میں مداخلت ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے ارتقاء اور ایکوسٹم کی تنزلی کی اہم اور بنیادی وجہ ہی انسانی بے جا مداخلت ہے، جس کی وجہ سے ان دونوں نظاموں میں خاطرخواہ خلل کے ساتھ ساتھ ایک نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ان نظاموں میں خرابیوں کے باعث ایسا کوئی بھی ہدف پایہ تکمیل تک پہنچنا اب ممکن نہیں رہا ہے جو کہ ماحولیاتی نظام کی حفاظت اور پائیداری کے فروغ کو ممکن بنا سکے۔

اقوام متحدہ نے 2011ء سے2020ء کی دہائی کو حیاتیاتی تنوع اور 2021ء سے 2030ء کی دہائی کو ایکوسٹم کے طور پر متعارف کروایا۔ آج بھی خوراک، پانی، لباس، ادویات، رہائش، ایندھن اور توانائی وغیرہ کیلئے صحت مند اور متحرک ایکو سسٹم کی ضرورت ہے۔ دورِ جدید میں ہمیں صحت مند بنیادوں پر فطری دنیا سے اپنے تعلق استوار کرنے چاہئیں اور حیاتیاتی تنوع کو محفوظ بنانے کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر کوششیں کرنی چاہئیں۔

ماحولیاتی نظام پر مبنی نقطہ نظر سے آب و ہوا، صحت کے مسائل، خوراک اور پانی کی حفاظت اور پائیدار معاش کیلئے فطرت پر مبنی حل تک، حیاتیاتی تنوع وہ بنیاد ہے جس پر ہم بہتر طریقے سے تعمیر کر سکتے ہیں۔