چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن

June 12, 2022

ہر سال 12جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچوں سے مزدوری لینے کے رجحان کا خاتمہ کرکے انھیں مشقت کی اذیتوں سے نجات دلا کر اسکول کا راستہ دکھانا اور معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس دن سماجی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے سیمینارز، واکس اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ محنت کش بچوں کے مسائل حکومت اور دیگر ذمہ داران تک مؤثر طریقے سے پہنچائے جاسکیں۔

چائلڈ لیبر کے خاتمے کے عالمی دن کی بنیاد انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جانب سے 2002ء میں رکھی گئی تھی، جس کے بعد سے یہ دن منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں سال چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن2021ء (بین الاقوامی سال برائے چائلڈ لیبر کا خاتمہ) کے لیے کیے گئے اقدامات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ بچوں کی مزدوری کی بدترین شکلوں پر ILO کے کنونشن نمبر 182 کی عالمگیر توثیق کے بعد یہ پہلا عالمی دن ہے، اور یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب کووِڈ-19کے بحران کے باعث اس مسئلے سے نمٹنے میں برسوں کی پیش رفت ضائع ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔

چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے عالمی سماجی تحفظ

2022ء کے لیے اس دن کی تھیم ’’چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے عالمی سماجی تحفظ‘‘ رکھی گئی ہے۔ یہ سماجی تحفظ کے نظام اور اسکیموں میں سرمایہ کاری بڑھانے کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ سماجی تحفظ کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور بچوں کو چائلڈ لیبر سے بچایا جا سکے۔ آج 16کروڑ بچے اب بھی چائلڈ لیبر ہیں، جن میں سے کچھ کی عمریں 5 سال تک ہیں۔ غربت اور کمزوری سے لڑنے اور چائلڈ لیبر کے خاتمے اور روک تھام کے لیے حکومتی سماجی تحفظ کے نظام ضروری ہیں۔ سماجی تحفظ ایک انسانی حق ہے اور خاندانوں کو بحران کے وقت چائلڈ لیبر کا سہارا لینے سے روکنے کے لیے ایک طاقتور پالیسی ٹول ہے۔

چائلڈ لیبر کا پھیلاؤ

دنیا بھر میں بچے روزمرہ معمولات میں ایسے بامعاوضہ اور بلا معاوضہ کام میں مصروف ہوتے ہیں، جو کہ ان کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔ تاہم، جب وہ کام کرنے کے لیے بہت چھوٹے ہوتے ہیں یا وہ خطرناک سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جو اُن کی جسمانی، ذہنی، سماجی یا تعلیمی نشوونما کو متاثر کر سکتے ہیں، تو ان کی چائلڈ لیبر کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں، ہر چار میں سے تقریباً ایک بچہ (5سے 17سال کی عمر) مزدوری میں مصروف ہے، جسے اس کی صحت اور نشوونما کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں ہر دس بچوں میں سے تقریباً ایک بچہ مزدوری کررہا ہے۔ 2000ء کے بعد سے چائلڈ لیبر کی تعداد میں 9کروڑ 40 لاکھ کی کمی ہوئی ہے، تاہم حالیہ برسوں میں اس شرح میں دو تہائی کمی آئی ہے۔ اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی معرکہ آرائیاں، خانہ جنگی، قدرتی آفات اور نقل مکانی بھی ہے، جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ٹارگٹ 8.7 سال 2025ء تک چائلڈ لیبر کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

چائلڈ لیبر میں بچوں کی شرح کے لحاظ سے افریقا دیگر خطوں میں سب سے اوپر ہے، جہاں چائلڈ لیبر کی مطلق تعداد 7کروڑ20لاکھ ہے۔ ایشیا اور بحرالکاہل کا دوسرا نمبر ہے، جہاں6کروڑ20لاکھ چائلڈ لیبر ہیں۔ افریقا، ایشیا اور بحرالکاہل کے خطوں کا دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کا تقریباً 90فیصد حصہ ہے۔ باقی چائلڈ لیبر کی آبادی امریکا (1کروڑ10لاکھ)، یورپ اور وسطی ایشیا (60لاکھ) اور عرب ریاستیں (10لاکھ) میں تقسیم ہے۔

اگرچہ کم آمدنی والے ممالک میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ ہے، لیکن درحقیقت درمیانی آمدنی والے ممالک میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں 9فیصد اور اعلیٰ متوسط آمدنی والے ممالک میں 7فیصد چائلڈ لیبر ہیں۔ ہر قومی آمدنی کے گروپ میں چائلڈ لیبر میں بچوں کی قطعی تعداد کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ چائلڈ لیبر میں 8کروڑ40لاکھ بچے درحقیقت درمیانی آمدنی والے ممالک اور 20لاکھ اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔

پاکستان میںصورتحال

ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں بچے گھریلو حالات اور معاشی مشکلات کے ہاتھوں مجبور ہو کر محنت مزدوری کررہے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مشقت کرنے والے ان بچوں کو نہایت معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مختلف شعبوں میں مشقت کرنے والے مجبور بچوںکی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

تاہم، ایک اندازے کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح صوبہ پنجاب میں ہے۔ غریب گھرانوں سے تعلق ہونے کی بنا پر ان بچوں کو تعلیم اور مناسب خوراک کی سہولتیں بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ ورکشاپس، کارخانوں، فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں کام کرنے والے ان بچوںکو تعلیم دلانے کی ضرورت ہے۔

ملک میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن یا تو یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں یا پھر ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16سال سے کم عمر بچوں کو ملازمت پر رکھتا یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20ہزار روپے تک جرمانہ یا ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے، جس کی مدت 2 سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمر بچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لیے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کی جائیں تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔