ناموسِ رسالتﷺ کا تحفظ اور اُس کے تقاضے

June 17, 2022

پروفیسر حافظ حسن عامر

خاتم المرسلین، سیّدالعالمین، صاحبِ قاب قوسین، جنابِ طٰہٰ و یسین، حاملِ مقامِ محمود، رسولِ کریم، رؤف ورحیم ﷺکا نامِ مبارک اور اسمِ مکّرم محمد (ﷺ) ہے عربی لغت میں اس لفظ کے معنی ہیں، بہت زیادہ تعریف کیا گیا۔ستودہ صفات اوصافِ محمودہ سے متصف نہایت عمدہ خصائل اور بلند ترین فضائل و شمائل سے منوّر ذاتِ بابرکات، یعنی جنابِ محمّد رسول اللہ ﷺ۔ قرآنِ مجید میں حق تعالیٰ نے آپﷺ کی نبوّت ورسالت کی گواہی دیتے ہوئے ارشاد فر ما یا:’’اللّہ (بزرگ و بر تر) شہادت کے لئے کافی ہے (یقیناً) محمد ﷺ (ہی) اللہ کے رسولِ بر حق ہیں‘‘۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر۲۹)

سرکاردوعالمﷺ کے مقام کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانہ ہے، جہاں باری تعالیٰ کا نام آتا ہے، وہیں آپؐ کانامِ مبارک آتا ہے۔ کلمۂ طیّبہ آپؐ کے شرف کی دلیل ہے، کلمہ شہادت آپؐ کی صداقت کاثبوت ہے مساجد کے مینار آپ ؐ کی قدرو منزلت کا نشان ہیں۔ اذان آپؐ کی شان وعظمت کااعلان ہے، تکبیر آپؐ کے علو ِمرتبت کی علامت ہے، نمازآپؐ کی جلالتِ قدرکی شہادت ہے، آپؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، قرآن میں آپﷺ پر درود وسلام کا حکم آپؐ کے ارتفاع منزلت کا نقش ہے۔

محبوبِ کبریا سیّد الکونینﷺ کی شانِ اقدس میں (نعوذ باللہ) ادنیٰ سی ایذا رسانی یا گستاخی قہرِ الٰہی، رسوا کن عذاب ،ابدی لعنت اور دائمی پھٹکار کا موجب ہے، ارشادِ ربِ قدیر ہے:’’ بلا شبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو تکلیف پہنچاتے ہیں ،ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے پھٹکار ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر دیا گیا ہے۔ (سورۃ الا حزاب آیت نمبر ۵۷)

رحمتِ مجسم ﷺ کا چچا ابولہب کافر و مشرک اور دشمنِ حق تھا۔اس کا اصل نام ’’عبد العزیٰ‘‘ تھا، وہ لات و منات عزیٰ اور ہبل کا پیرو تھا،اپنے چہرے کی آگ جیسی سرخی کی بناء پر ابو لہب کے نام سے پکارا جاتا تھا، انجام کے اعتبار سے اس بد بخت کو شعلوں والی آگ کا ایندھن بننا تھا ،شانِ رسالتؐ میں گستاخی کرنا رحمتِ عالم کو ایذا پہنچانا دین اسلام کا مذاق اُڑانا بارگاہ نبویؐ میں ہرزہ سرائی کرنا اس بد بخت کا شیوہ تھا۔ قرآنِ عظیم نا صرف اس کا نام لے کر انتہائی سخت الفاظ میں اس کی مذمت کرتا ہے ،بلکہ اس لعین کو ابدی لعنت اور دائمی ذلت کا مستحق قرار دیتا ہے۔

سورۃ اللہب میں ارشادِ خداوندی ہے’’ ٹوٹ گئے ابی لہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ، اس کا مال اور جو کچھ اس نے کما یا تھا ، وہ اس کے کچھ کا م نہ آیا، ضرور بالضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا، اور اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی لگائی بجھائی کرنے والی، اس کی گردن میں (کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ) مونجھ کی رسّی ہوگی۔

انجام کار اس لعین کا بدترین حشر ہوا۔ طاعون جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوا اور سسک سسک کر واصلِ جہنّم ہوگیا۔ ابولہب کے بیٹے عتبہ نے بھی سورۃ النّجم سن کررحمتِ عالم ﷺ کا مذاق اڑایا۔ شانِ اقدس میں (نعوذباللہ) گستاخی کی تو دنیا میں ہی اس بد بخت کو دردناک سزا ملی اور ایک درندے نے اسے ہلاک کردیا۔ (خصائص کبریٰ للسّیوطی)

شاتمین یعنی گستاخانِ رسول، پر حق تعالیٰ شانہ ، کی نا راضی،غیظ و غضب اور قہر و جلال کا اندازہ تو سورۃ القلم کی ان دس آیات سے لگایا جاسکتا ہے، جن میں ولید بن مغیرہ کی صفاتِ ذمیمہ کا تذکرہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ باری تعالیٰ ہے ــ’’ عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔ تمہارا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں۔

لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دبائو میں ہر گز نہ آئو، یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو وہ بھی مداہنت کریں۔ ہرگز نہ دبو، کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والاہے۔ بے وقعت آدمی ہے ، طعنے دیتاہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال، جفاکار ہے ، اور سب عیوب کے ساتھ بداصل (ولدالحرام) ہے، اس بناء پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے، ہماری آیات جب اسے سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں، ہم عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے (ناک کو سونڈ کہا گیا ہے اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل وتحقیر ہے) یعنی دنیا وآخرت میں اسے ایسا ذلیل و خوار کریں گے کہ ابد تک یہ عاراس کا پیچھا نہ چھوڑےگاـ۔ (سورۃ القلم آیت۵، تا ۱۶)

سورۃ القلم کی آیاتِ مذکورہ بالا سے واضح ہوا کہ شاتمین یعنی شانِ رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کے مرتکب افراد جن صفاتِ ذمیمہ کے حامل ہوتے ہیں، یہ وہ اخلاقی برائیاں ہیں، جن سے پورا معاشرہ بدامنی اور فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔

قرآنِ مجید کی روشنی میں ایک شاتم وگستاخ رسول کی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ کرکے اس کی تحلیلِ نفسی (ذہنی محرکات ) کی جائے تو درجِ ذیل اخلاقی ذمائم ابھر کر سامنے آتے ہیں ،جن کا بطور خاص کلام اللہ میں نام لے کر نہ صرف ذکر کیا گیا، بلکہ ایک ایک کر کے ان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

مثلاً تصریح کی گئی ہے کہ وہ:۔مُکَذِّبْ… انتہائی جھوٹا۔حَلَّاف…جھوٹی قسمیں کھانے والا۔مَھِیْن… نہایت حقیر و ذلیل بے وقعت شخص۔ ھَمَّاز… بہت طعنہ زن، عیب گو۔مَشَّآءِ بنمیم…نہایت چغل خور، چغلیاں کھانے والا۔مَنَّاعٍ للّخَیْر…ہر نیک کام سے روکنے کی بھرپور کوشش کرنے والا ۔مُعتدِِ … حدسے تجاوز کرنے والا ،تعدی کرنے والا۔ اَثِیْمٌ…نہایت گناہ گار، گناہ پر گناہ کرنے والا۔عُتُل… جھگڑالو، بد ُخلق اور سفاک، ظالم۔زِنِیْمٌ… بد اصل، بد نسل، ولدالحرام۔

بارگاہِ ربّ العالمین سے شاتمین اور گستاخانِ رسول کی مکّاریوں، چالبازیوں کو جانچنے کا ایک آئینہ حقیقت نما عطا کر دیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی ، بدبخت، ہمارے محبوبِؐ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو تو سمجھ لو کہ یہ مکّار جھوٹا، بے وقعت، حقیروذلیل ، طعنہ باز، چغل خور، نیکی سے دور، حد سے تجاوز کرنے والا ، بد خلق، ظالم، سفّاک، بداصل اور بد نسل ہے۔

پھرربّ ِجلیل کی طرف سے پیغمبر ﷺ سے فرمایا جاتا ہے کہ اے حبیبِ مکرم ﷺ! آپ تو بس اپنے ربّ کی تحمید ،تعریف، تسبیح و تقدیس میں مصروف رہیے اور اپنے رب کی بارگاہ نیاز میں سجدہ عبودیت بجا لاتے رہیے ۔ارشادِ باری ہے:’’ پس آپؐ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہیے اور سجدہ بجالا نے والوں میں شامل رہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیے، یہاں تک کہ آپؐ پر وہ چیز آجائے جس کا آنا یقینی ہے‘‘(سورۂ حجر آیت ۹۸،۹۹)

بارگاہِ ربّ العزت میں مقام مصطفیٰ ﷺ کیا ہے؟ شانِ رسالت میں قرینۂ ادب کس کو کہتے ہیں؟ بارگاہِ نبویؐ میں احترام کے اصو ل وضوابط کیا ہیں ؟ ذرا سورۃ الحجرات کا مطالعہ کیجیے ، ارشاد ہوتا ہے: ’’ اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسولﷺ (کے حکم ) سے تم سبقت نہ کیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بلاشبہ اللہ خوب سننے والا اور بخوبی جاننے والا ہے‘‘۔ (سورۃ الحجرات آیت ۱)

بارگاہِ رحمتِ عالم ﷺمیں تکلم وتخاطب کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا:’’ اے ایمان والو! (رسولِ محترم ﷺ) کو اپنی طرف متوجہ کر نا پاہو تو لفظِ ’’ راعنا‘‘ (ہماری رعایت کیجیے ) نہ کہا کرو ،بلکہ ’’ اُنظرنا‘‘ (ہم پر نظر کرم فرمایئے کہا کرو) اور جو کچھ ارشاد فرمائیں اسے دل لگا کر بغور سنا کرو ‘‘۔(سورۃ البقرہ آیت ۱۰۴)

مزید بر آں محفلِ نبویؐ میں سرگوشی ، کان میں چپ کے چپ کے باتیں کرنا ، دینِ حق کا مذاق اڑانا ، خدمتِ نبویؐ میں حاضر ہوکر بجائے ہدیۂ سلام و تحیہ پیش کرنے کے لفظ ’’ سلام‘‘ ہی کو تبدیل کرکے معاذ اللہ یہود و منافقین کی طرح گستاخانہ کلمات زبان سے نکالنا ، اللہ کے نزدیک بدترین گناہ ہے جس پر نارِ جہنم کی دائمی سزا اور وعید سنائی گئی ہے، ارشادِبا ری تعالیٰ ہے : ـ’’ (اے محمدﷺ) کیا آپ ؐ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا، جنہیں سرگوشی سےمنع کیا گیا تھا ، پھر بھی وہی کام کرنے لگے، جن سے انہیں منع کیا گیا تھا، وہ گناہ، ظلم اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں اورآپ ﷺ سےایسے الفاظ سے (نعوذباللہ) سلام کرتے ہیں جس سے اللہ نے آپ ﷺ کو سلام نہیں کیا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں (اگر واقعی یہ رسول سچے ہیں تو) جو کچھ ہم کہتے ہیں اللہ ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا۔ یقیناً ان کے لیے دوزخ کافی ہے جس میں وہ ضرور داخل ہوں گے اور (یہ بہت ہی ) برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔ (سورۃالمجادلہ آیت ۸)

قرآنِ عظیم کی مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ اللہ جلِ شانہُ کے نزدیک سرور کونین ؐ کی بارگاہِ ادب میں ذرا سی بے ادبی معمولی سے خطا ، ادنیٰ سی گستاخی ، خواہ تکلم یا تخاطب سے ہو ، گفتگو کے انداز وآہنگ سے ہو، اعضاء کی حرکات و سکنات سے ہو، باری تعالیٰ کے نزدیک ناقابلِ تلافی جرم اور ابدی نقصان و خسران کا پیش خیمہ ہے۔

محبوبِ ربّ العالمین کی جناب میں سرگوشی، جنبشِ لب، اشارۂ ابرو، آنکھوں کے ذریعے اس طرح رمز و کنایہ کرنا جس سے کسی قسم کی گستاخی کا پہلو نکلتا ہو، ہر گز روا نہیں۔ ہوشیار ہو جاؤ کہ یہ مقام، مقامِ ادب اور جائے حرمت و تقدیس ہے، یہاں تو سانس بھی سنبھل کر لینا ہے، کیوں کہ یہ تو وہ بارگاہ ِمحترم ہے، جو عرش سے نازک تر ہے یہاں تو جنید و با یزید جیسے اولیاء و اتقیاء پاسِ ادب اور کمالِ احتیاط کی وجہ سے سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں۔