سپر ٹیکس کا نفاذ: معیشت کیلئے ایک اور بری خبر

June 29, 2022

حکومت کی طرف سے بلا سوچے سمجھے کئے جانے والے اقتصادی فیصلوں کے باعث ملک میں معاشی سرگرمیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے اب ایک نیا اقدام سپر ٹیکس کا نفاذ ہے جس سے معاشی سست روی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے دو ہفتے قبل پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7000 ارب روپے مقرر کیا تھا لیکن اب آئی ایم ایف کی شرائط پر اس میں مزید 400 ارب روپے کا اضافہ کر کے یہ ہدف 7400 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے مطابق یہ 400 ارب روپے اکٹھے کرنے کے لئے 13 مختلف صنعتی شعبوں پر دس فیصد کی شرح سے سپر ٹیکس لگایا جائے گا۔

ان شعبوں پر سپر ٹیکس نافذ کیا جا رہا ہے ان میں سیمنٹ، بینکنگ، ایوی ایشن انڈسٹری، ٹیکسٹائل، آٹو موبائل، شوگر، بیوریج، اسٹیل، تیل و گیس، فرٹیلائزر، سگریٹ اور کیمیکل کی صنعتیں ہیں جنہیں پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کے علاوہ مزید 10 فیصد سپر ٹیکس کی مد میں ادا کرنا ہو گا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان شعبوں کے علاوہ دوسرے صنعتی شعبے چار فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں اوران کے مقابلے میں مندرجہ بالا صنعتی شعبوں کو چھ فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جس کے بعد ان سے ٹیکس وصولی کی مجموعی شرح 29 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہو جائے گی۔

سپر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان ہوتے ہی جمعے کے روز اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور انڈیکس دو ہزار پوائنٹس سے زائد کم ہو کر 40 ہزار کی سطح پر آ گیا۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جن صنعتوں پر سپر ٹیکس لگایا جا رہا ہے ان کی بڑی تعداد اسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ ہے اور اس فیصلے سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ مایوسی اس وجہ سے بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ جب سے مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے پیٹرول،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 30سے 40 فیصد اضافے اور شرح سود 13 فیصد تک بڑھنے کی وجہ سے انڈسٹری کے لئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔

اس صورتحال کاایک اور پہلو یہ ہے کہ اس اضافی معاشی بوجھ کی وجہ سے مصنوعات کی لاگت میں اضافہ ہو گا جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبےعوام کی کمر بالکل ہی ٹوٹ جائے گی۔

اس کے علاوہ ملک میں جاری سرمایہ کاری کا عمل بھی خطرے میں پڑگیا ہےاور سرمایہ کاروں نے یہ سوچنا شروع کر دیاہے کہ موجودہ حالات میں مزید سرمایہ کاری خطرے سے خالی نہیں ہے۔

یہ صورتحال اس لحاظ سے اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ٹیکس ایمنسٹی کا فائدہ اٹھانے والے رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور زراعت کے شعبے پرکوئی خاطر خواہ ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ سالانہ دو ہزار ارب روپے سےزائد کی چوری روکنے کے لئے بھی اس حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی ہے ۔ ایسے میں پہلے سے بھاری ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے والے شعبے پرسپر ٹیکس کے نفاذ کو کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

بظاہر اس ٹیکس کا مقصد یہی ہے کہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنیوالے شعبوں پر مزید بوجھ ڈال کر زیادہ پیسے اکٹھے کیے جائیں لیکن اس کے ردعمل میں ٹیکس چوری یا اس سے بچنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

حکومت نے اگر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے زیادہ پیسے اکٹھے کرنے ہی ہیں تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ بجٹ میں مختلف شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے۔اس سلسلے میں رئیل اسٹیٹ ، زراعت ، ہول سیلرز اور ٹریڈرز کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے۔

سپر ٹیکس کا نفاذ ملک میں مالیاتی ڈسپلن میں بھی بگاڑ کا باعث بنے گا اور اس اقدام کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کو کاروباری اداروں کو بلا جواز تنگ کرنے اور قانونی موشگافیوں میں الجھانے کا ایک نیا موقع مل جائے گا۔

اس سلسلے میں ممکنہ طور پرجو پیچیدگیاں پیدا ہو نے کا اندیشہ ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان میں بینک 31 دسمبر کو اپنے اکائوئنٹس بند کرتے ہیں جس کے بعد 30 ستمبر 2022 تک انہیں اپنے ریٹرن فائل کرنے ہوتے ہیں۔

تاہم اب اس ٹیکس کے نفاذ کے بعد انہیں اپنے ریٹرنز میں یہ ٹیکس ادا کر کے دکھانا ہے حالانکہ جب وہ اپنے سالانہ اکائونٹس کلوز کر رہے تھے تو اس وقت یہ ٹیکس نہیں تھا لیکن اب جبکہ چھ مہینے بعد یہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے تو انھیں اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس ادا کرکے اس کی ادائیگی ریٹرن میں دکھانا پڑے گی۔

اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر کے اکاؤنٹس مالی سال کے اختتام پر بند ہوتے ہیں، یعنی جب 30 جون 2022 کو یہ کمپنیاں اپنے اکائونٹس بند کریں گی تو انہیں اپنے ٹیکس ریٹرن 31دسمبر 2022تک جمع کروانا ہوں گے جس کی وجہ سے انہیں یہ اضافی ٹیکس ادا کر کے ریٹرن میں دکھانا ہو گا۔

اس طرح بڑی صنعتوں کو اپنی استعداد کار مزید بڑھانے کی بجائے ایک ایسے چکر میں الجھایا جا رہا ہے جس سے صنعتی عمل سست روی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ۔ اسلئے حکومت کو چاہیے کہ سپر ٹیکس کے نفاذ کی بجائے اضافی ٹیکس محصولات کی وصولی کے لئے دیگر اقدامات پر توجہ دے ۔